امن ( peace ) کا مسئلہ کوئی مذہبی مسئلہ نہیں ہے، وہ فطرت کا ایک قانون ہے۔
اس دنیا کے پیدا کرنے والے نے دنیا کا نظام فطرت کے قانون کے تحت بنایا ہے۔ ہر معاملے کا ایک فطری قانون ہے۔ جو آدمی اس فطری قانون کا اتباع کرے گا، وہ کام یاب ہوگا۔ اور جو شخص اس کی خلاف ورزی کرے گا، وہ ناکام ہو کر رہ جائے گا۔
اصل یہ ہے کہ دنیا کے خالق نے ہر انسان کو آزادی عطا کی ہے۔ ہر انسان پوری طرح آزاد ہے کہ جو چاہے کرے، اور جو چاہے نہ کرے۔ اس بنا پر ہر سماج میں امکانی طور پر ٹکراؤ کا ماحول قائم ہو جاتا ہے۔ ایک شخص کی آزادی دوسرے شخص کی آزادی سے ٹکراتی ہے۔ یہی وہ صورت حال ہے جو ہر سماج میں نفرت اور تشدد کا ماحول پیدا کردیتی ہے۔
اس مسئلے کا حل کیا ہے۔ کوئی شخص اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ لوگوں سے ان کی آزادی چھین لے۔ ایسی حالت میں کسی سماج میں امن صرف اس وقت قائم ہو سکتا ہے، جب کہ لوگ ایسا فارمولا دریافت کریں جس میں آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، امن قائم ہو جائے۔
یہ فارمولا صرف ایک ہے۔ اور وہ ہے اعراض کا اصول ( principle of avoidance )۔ یعنی ٹکراؤسے ہٹ کر اپنا سفر طے کرنا۔
اعراض کا اصول ایک کائناتی اصول ہے۔ کائنات اسی اصول پر قائم ہے۔ کائنات میں بے شمار ستارے اور سیّارے ہیں۔ ہر ایک مسلسل طور پر خلا میں حرکت کررہا ہے۔ مگر ان کے درمیان کبھی ٹکراؤ نہیں ہوتا۔ اس کا سبب یہ ہے کہ ہر ستارہ اور سیارہ اصول اعراض کے مطابق، اپنے اپنے مدار (orbit) پر گردش کر رہا ہے۔ یہی اصول انسانوں کو بھی اپنی چوائس سے اختیار کرنا ہے۔
اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں جس کے ذریعے انسانی دنیا میں امن قائم ہوسکے۔ امن کا معاملہ مذہبی عقیدہ کا معاملہ نہیں، بلکہ وہ فطرت کا معاملہ ہے۔ امن ہر ایک کی ضرورت ہے، خواہ وہ مذہبی انسان ہو یا سیکولر انسان۔
(نام ور عالم، دانش اور مصنّف مولانا وحید الدین خان کے قلم سے)