پیر, ستمبر 16, 2024
اشتہار

13سالہ آروشی کی گردن پر چھری کس نے پھیری؟ آخرحقیقت کیا ہے؟

اشتہار

حیرت انگیز

بھارتی شہر نوئیڈا میں سال 2008 کو قتل ہونے والے دو افراد 13 سالہ آروشی تلوار اور گھریلو ملازم ہیمراج بنجادے کے قاتل حیرت انگیز طور پر آج تک نہ پکڑے جاسکے؟

قتل کی اس دوہری اور انوکھی واردات نے پورے بھارت کو نہ صرف ہلا کر رکھ دیا بلکہ تحقیقاتی اداروں کی کارکردگی پر بھی سوالات کھڑے کردیئے۔

کب کیا ہوا؟

یہ واقعہ سال 2008 کے مہینے مئی کی 16تاریخ کی رات کو پیش آیا جب بھارت کے شہر نوئیڈا کے ایک مکان میں 13 سالہ آروشی کی گلا کٹی لاش اس کے کمرے میں پائی گئی ابھی قتل کی تحقیقات کا آغاز ہی ہوا تھا کہ اگلے روز ہی گھر کی چھت پر ہیمراج بنجادے نامی گھریلو ملازم کی لاش بھی اسی حالت میں ملی۔

- Advertisement -

چونکہ مرنے والے دونوں افراد کے گلے پر چھریاں پھیری گئی تھیں لہٰذا پولیس کو یقین تھا کہ یہ خود کشی نہیں قتل کی ہی واردات ہے۔

اس کے بعد ہونے والی تحقیقات سادہ نہیں تھیں، حقیقت میں اس کیس میں موڑ اتنی تیزی سے آئے کہ یہ معاملہ ایک سنسنی خیز معمے میں تبدیل ہوگیا جس کی مثال شاذ و نادر ہی ملتی ہے۔

آروشی تلوار

اب جبکہ پولیس کے پاس قتل کے دو پراسرار معاملات زیر تفتیش تھے تو انہوں نے تحقیقات میں کچھ غلطیاں کیں جیسے کہ آروشی تلوار کی موت کے بعد جائے وقوعہ کو محفوظ نہ کرنا اور میڈیا اور عوام کو گھر میں داخل ہونے کی اجازت دینا۔

ابتداء میں پولیس نے اس سنسی خیز دہرے قتل کے معاملے کو حل کرنے کا دعویٰ کیا اور ڈاکٹر راجیش تلوار کے نوکروں کو مشتبہ ملزمان ٹھہرایا۔

بعد ازاں پولیس نے اسے غیرت کے نام پر قتل قرار دے کر کہا کہ آروشی کے والدین نے ہیمراج کو آروشی کے ساتھ اس کے کمرے میں ’قابل اعتراض حالت میں پایا‘ اور طیش میں آکر انھوں نے اپنی بیٹی اور ملازم دونوں کو قتل کردیا۔

اس کے بعد پولیس نے 23 مئی کو ڈاکٹر راجیش تلوار اور ان کی اہلیہ کو بیٹی آروشی اور نوکر ہیمراج کے قتل کے الزام میں گرفتار کر لیا تھا۔ اس دہرے قتل کے بعد پورے ملک میں سنسنی پھیل گئی تھی، لوگ اس واقعے کو اتنا ڈسکس کرنے لگے کہ اس پر سینکڑوں مضامین اور ایک کتاب بھی لکھی گئی۔ اس کے علاوہ فلم اور کرائم پر مبنی ڈرامے بھی بننے لگے۔

یاد رہے کہ مقتولہ آروشی تلوار 24 مئی 1994 کو پیدا ہوئی اس کے والدین پیشے کے اعتبار سے ڈینٹسٹ تھے وہ نویں کلاس کی طالبہ تھی۔ ،

16مئی کی صبح 6 بجے گھر میں کام کرنے والی ملازمہ بھارتی نے دروازے کی گھنٹی بجائی، عام دنوں میں گھر کا نوکر بھارتی کو دروازہ کھول کر اندر جانے دیتا تھا لیکن وہ وہاں موجود نہیں تھا۔ گھنٹی تین بار بجی اور آخرکار آروشی کی والدہ نوپور جو اوپر بالکونی میں تھی نے دروازے کی چابیاں نیچے پھینک کر ملازمہ کو دیں۔

ملازمہ کے بیان کے مطابق یہ بات حیران کن تھی کہ اتنی صبح دونوں میاں بیوی جاگ رہے تھے کیونکہ یہ دونوں ایک کلینک میں شام کی شفٹ میں کام کرتے تھے۔

بھارتی نے بتایا کہ جب وہ اندر آئی تو دیکھا کہ یہ دونوں اپنی بیٹی کے کمرے میں تھے اور زارو قطار رو رہے تھے کہ دیکھو ہیمراج (ملازم) نے یہ کیا کیا؟

جب پولیس صبح 7:15 بجے پہنچی تو گھر میں لوگوں کر رش لگا ہواتھا جبکہ پانچ یا چھ افراد والدین کے بیڈروم میں موجود تھے، پولیس کیلئے ان افراد کی موجودگی ڈی این اے کی تلاش اور ثبوتوں کو اکھٹا کرنے کیلئے بہت زیادہ نقصان دہ تھی۔ جائے وقوعہ سے حاصل کیے گئے 28فنگر پرنٹ نمونوں میں سے زیادہ تر دھندلے اور بیکار تھے۔

مقتولہ کے والد راجیش نے سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) کو چھت کا دروازہ نہ کھولنے کی ہدایت دی اور انہیں 25ہزار روپے کی پیشکش کی تاکہ وہ نوکر بانجادے کو تلاش کریں۔

مقتولہ کے والدین راجیش اور نوپور نے دعویٰ کیا کہ قتل کے وقت انہوں نے ایک بھی آواز نہیں سنی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے کمرے کا دروازہ بند تھا اور ایئر کنڈیشن کی آواز کی وجہ سے باہر کی آواز اندر نہیں آسکتی۔

جس رات آروشی تلوار کا قتل ہوا، اس کے دوست انمول نے گھر کی لینڈ لائن پر کال کی، آروشی تلوار عام طور پر آدھی رات کے بعد اپنے دوستوں سے بات کرنے کیلئے اپنا فون استعمال کرتی رہتی تھیں تاہم 15 مئی کو اس کا فون رات 9:10 بجے کے بعد سے بند تھا۔

گھر پر انمول کی کال کا جواب نہیں دیا گیا تو اس نے اسے 12:30 بجے کے قریب ٹیکسٹ میسج بھیجا جو اس کے فون پر موصول ہی نہیں ہوا کیونکہ وہ پہلے ہی بند تھا۔

سی بی آئی کی رپورٹ کے مطابق اروشی کے والدین بیٹی کی موت کے رات 9:30 بجے گھر واپس آئے تھے، انہوں نے بقول ان اس کے ساتھ کھانا کھایا اور اسے اس کی سالگرہ سے پہلے ایک ڈیجیٹل کیمرہ بھی بطور تحفہ دیا، چند تصاویر کھینچنے کے بعد سب لوگ رات 11 بجے سو گئے، بعد میں بتایا کہ انہوں نے آخری بار اپنی بیٹی کو کتاب پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔

یہ بات نوٹ کرنا ضروری ہے کہ سوتے وقت آروشی کے بیڈروم کا دروازہ معمول کے مطابق بند تھا۔ چابیاں عام طور پر والدہ کی میز پر رہ جاتی تھیں لیکن ماں نے بعد میں پولیس کو بتایا کہ اسے یاد نہیں ہے کہ اس رات اس نے اپنی بیٹی کا دروازہ بند کیا تھا یا نہیں۔

تفتیش میں زبردست پیچیدگیوں اور مشکلات کے بعد اس معاملے کو سی بی آئی کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

بعد ازاں سی بی آئی کی تفتیش کی بنیاد پر ہی ذیلی عدالت نے نومبر 2013 میں آروشی کے والدین کو دہرے قتل کا قصوروار قرار دیا اور انھیں عمرقید کی سزا سنائی جبکہ ڈاکٹر راجیش تلوار اور نوپور تلوار خود پر لگائے گئے تمام الزامات سے انکار کرتے رہے۔

الہٰ آباد کی عدالت نے 2017 کو اپنی بیٹی آروشی اور نوکر ہیمراج کے قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا بھگتنے والے والدین کو تمام تر الزمات سے بری کرکے رہا کرنے کا حکم دیا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ والدین ڈاکٹر راجیش اور نوپور تلوار نے اپنی بیٹی کو قتل نہیں کیا تھا، موجودہ ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر انہیں قصوروار نہیں مانا جا سکتا۔

عدالت کے فیصلے کے بعد یہ اس سوال نے ایک بار پھر سر اٹھا لیا کہ اگر میاں بیوی نے اپنی بیٹی اور نوکر کا قتل نہیں کیا تو آخر اصل قاتل کون ہے اور پکڑا جائے گا بھی یا نہیں؟

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں