منگل, اپریل 22, 2025
اشتہار

عبدالحفیظ کاردار: مشہور کرکٹر، مصنّف اور سیاست داں

اشتہار

حیرت انگیز

ایک دور تھا جب ٹیسٹ کرکٹ بھی بہت شوق سے دیکھا جاتا تھا اور غالباً اسی شوق اور دل چسپی سے جو آج ون ڈے اور ورلڈ کپ کے لیے شائقین میں دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ اسی زمانے کے ایک ٹیسٹ کرکٹر عبدالحفیظ کاردار کا تذکرہ ہے جن کے نام سے اب بہت کم لوگ واقف ہوں گے۔ مگر وہ اپنے وقت کے مشہور کرکٹر تھے۔ بطور کپتان اُن کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ اُن کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم نے ہر ٹیسٹ کھیلنے والے ملک کی ٹیم کو شکست دی۔

عبدالحفیظ کاردار کا تعلق لاہور سے تھا۔ وہ 17 جنوری 1925ء کو پیدا ہوئے تھے۔ کاردار نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔ آزادی سے قبل انھوں نے متحدہ ہندوستان کی طرف سے تین ٹیسٹ میچ کھیلے اور پھر پاکستانی کرکٹ ٹیم کے پہلے کپتان بنے۔ اس طرح وہ دنیا کے ان گنے چنے کھلاڑیوں میں سے تھے جنھوں نے اپنے کیریئر میں دو ممالک کی نمائندگی کی۔ 1952ء سے 1958ء کے دوران انھوں نے 23 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی جن میں چھے میچ جیتے، چھے ہارے اور گیارہ ٹیسٹ میچ بے نتیجہ رہے۔ 1958ء میں ویسٹ انڈیز میں حنیف محمد نے 337 رنز بنائے تو یہ کاردار کا آخری دورہ تھا۔

کاردار نے کچھ عرصہ سیاست کے میدان میں بھی گزارا اور اپنے قلم کو بھی کرکٹ اور سیاست کے موضوع پر متحرک کیا جس نے کاردار نے سے گیارہ کتابیں تحریر کروائیں۔ عبدالحفیظ کاردار کو پرائیڈ آف پرفارمنس اور بعد از مرگ ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔

عبدالحفیظ کاردار آکسفورڈ کے زمانۂ طالب علمی میں ذوالفقار علی بھٹو کے ہم عصر تھے۔ بھٹو کو کرکٹ سے لگاؤ تھا اور یہ باہمی دل چسپی اُن کے تعلقات کی بنیاد بنی۔ بعد ازاں کاردار پیپلز پارٹی میں شامل ہوئے اور لاہور کے ایک حلقے سے 1970ء کا الیکشن جیتنے کے بعد پنجاب اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ محکمۂ خوراک کو سنبھالنے کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی رہے۔ بعد میں ان کی تجویز پر حکومت پاکستان نے تمام بینکوں اور بڑے سرکاری اداروں کو کھیلوں کی ترویج کے لیے اپنی ٹیمیں تیار کرنے کو بھی کہا گیا اور مختلف کھیلوں کے مقابلوں کا انعقاد کروانے کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس زمانے میں زیادہ تر کھلاڑی تعلیمی اداروں سے نکلتے تھے اور عملی زندگی میں اداروں کی ٹیم کا حصہ بن کر قومی اور صوبائی یا علاقائی سطح پر کھیلتے اور اس کا مشاہرہ پاتے۔

کاردار کے والد جلال الدین کاردار پنجاب میں کوآپریٹو تحریک کے بانی شمار کیے جاتے ہیں۔ اس لیے ٹیسٹ کرکٹر کاردار کا بنیادی طور پر تعلق زمیں دار گھرانے سے تھا۔ کاردار نے میٹرک کا امتحان اسلامیہ ہائی اسکول سے پاس کیا۔ انٹر دیال سنگھ کالج اور بی اے کا امتحان اسلامیہ کالج سے پاس کیا تھا۔ ان کو شروع ہی سے اپنے دور کے باصلاحیت اور مشہور کرکٹر خواجہ سعید احمد کی سرپرستی حاصل رہی تھی۔ عبدالحفیظ کاردار بائیں ہاتھ سے میڈیم پیس باؤلنگ اور جارحانہ بیٹنگ کرتے تھے۔ رانجی ٹرافی میں ناردرن انڈیا کرکٹ ایسوسی ایشن کی طرف سے حصہ لیا تو ان کو خوب سراہا گیا۔ پنجاب یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کی قیادت کے بعد 1946ء میں نواب آف پٹودی کی کپتانی میں آل انڈیا کرکٹ ٹیم میں منتخب ہوئے جو انگلستان دورے پر جارہی تھی۔ یہی وہ کھیل تھا جس کے بعد عبدالحفیظ کاردار کا شمار بہترین کھلاڑیوں میں ہوا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد کاردار دو سال تک انگلستان میں ہی مقامی سطح پر کرکٹ کھیلتے رہے۔

21 اپریل 1996ء کو عبدالحفیظ کاردار لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ وہ میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں