اشتہار

قتیل: لکھنؤ کا نومسلم فارسی دان

اشتہار

حیرت انگیز

"باوجود اس کے کہ علومِ عربیہ کے بڑے بڑے علمائے گراں پایہ لکھنؤ کی خاک سے پیدا ہوئے، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عربی کی تعلیم مقتدایانِ امت اور پیشوانِ ملّت تک محدود تھی۔ ہندوستان میں درباری زبان فارسی تھی۔”

ملازمت حاصل کرنے اور مہذب و معزز صحبتوں میں چمکنے کے لیے یہاں فارسی کی تعلیم بخوبی کافی خیال کی جاتی تھی۔ اودھ ہی نہیں سارے ہندوستان میں ادبی و اخلاقی ترقی کا ذریعہ صرف فارسی قرار پا گئی تھی۔ مسلمان تو مسلمان اعلیٰ طبقے کے ہندوؤں کا عام رجحان فارسی ادب و انشا کی طرف تھا۔ یہاں تک کہ اعلیٰ درجے کی انشائیں ہندو مصنفوں ہی کے قلم سے مرتب و مدون ہوئی تھیں۔ ٹیک چند بہار نے بہارِ عجم کی سی لاجواب کتاب تصنیف کر دی جو مصطلحاتِ زبانِ فارسی کا ایک بے عدیل و نظیر ذخیرہ ہے۔ اور جس میں ہر محاورے کی سند میں اہلِ زبان کے بے شمار اشعار پیش کر دیے گئے ہیں۔ لکھنؤ کے ابتدائی عروج میں ملا فائق کا اور پھر مرزا قتیل کا نام مشہور ہوا جو ایک نومسلم فارسی دان تھے۔ وہ خود تو مذاقاً کہا کرتے کہ ‘بوئے کباب مرا مسلمان کرد’ مگر سچ یہ ہے کہ فارسی کی تعلیم، اُس کے شوق، اور کمالِ فارسی دانی کی آرزو نے اُنہیں مسلمان ہونے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے محض اسی شوق میں ایران کا سفر کیا۔ برسوں شیراز و اصفہان اور طہران و آذربائجان کی خاک چھانی۔ اور ادبِ فارسی کے اس اعلیٰ کمال کو پہونچ گئے کہ خود اہلِ زبان بھی ایسے باکمال زبان دان پر حسد کریں تو تعجب کی بات نہیں ہے۔

مرزا غالب نے جا بجا مرزا قتیل پر حملے کیے ہیں۔ بے شک مرزا غالب کا مذاقِ فارسی نہایت اعلیٰ درجے کا تھا۔ وہ اس اصول پر بار بار زور دیتے تھے کہ سوا اہلِ زبان کے کسی کا کلام سند نہیں ہو سکتا۔ مگر اُن کے زمانے میں چونکہ اودھ سے بنگالے تک لوگ قتیل کے پیرو تھے اور بات بات پر قتیل کا نام لیا جاتا تھا اس لیے مرزا غالب کو اکثر طیش آ گیا۔ اور جب پیروانِ قتیل نے اُن کی خبر لینا شروع کی تو کہنے لگے:
فیضے از صحبتِ قتیلم نیست
رشک بر شہرتِ قتیلم نیست

- Advertisement -

مگر اس سے یہ نہیں نکلتا کہ قتیل نے فارسی دانی میں جو کوششیں کی تھیں اور اس میں واقفیت و کمال حاصل کرنے میں جو زندگی صرف کی تھی وہ بالکل بیکار گئی۔ اس بات کے ماننے میں کسی کو عذر نہیں ہو سکتا کہ قتیل کا کوئی دعویٰ جب تک وہ اہلِ زبان کی سند نہ پیش کریں قابلِ تسلیم نہیں ہے۔ اور نہ خود قتیل کے ذہن میں کبھی یہ خیال گزرا ہو گا۔ لیکن اس کی خصوصیت قتیل ہی کے ساتھ نہیں۔ ہندوستان کا کوئی شخص بجائے خود سند نہیں ہو سکتا۔ خود مرزا نوشہ غالب بھی کوئی فارسی کا محاورہ بغیر اہلِ عجم کے ثبوت پیش کیے نہیں استعمال کر سکتے۔ ہندوستانی فارسی دانوں کا اگر کچھ وقار قائم ہو سکتا ہے تو صرف اس بنا پر کہ کلامِ فارسی میں اُن کی نظر وسیع ہے اور ہر ہر لفظ کے صحیح محلِ استعمال سے واقف ہیں۔ اور اس حیثیت سے سچ پوچھیے تو غالب کے مقابلے میں قتیل کا پایہ بہت بلند تھا۔ غالب زندگی بھر ہندوستان کی خاک چھانتے رہے۔ اور اس کے ساتھ طلبِ معاش میں سرگرداں رہے۔ قتیل کو اطمینان کا زمانہ ملا تھا۔ اور مدتوں خاکِ پاکِ ایران میں رہ کے گاؤں گاؤں کی ٹھوکریں کھاتے پھرے تھے۔

بہر تقدیر لکھنؤ کی فارسی دانی کا آغاز قتیل سے ہوا۔ اور اُن سے کچھ پہلے ملا فائق نے جن کا خاندان آگرے سے آ کے مضافاتِ لکھنؤ میں بس گیا تھا ادب و انشائے فارسی اور فارسی نظم و نثر میں اعلیٰ درجے کی بے نظیر کتابیں تصنیف کیں۔ فارسی گو اور فارسی دان ہندوستان میں ان سے پہلے بھی گزرے تھے۔ مگر فارسی دانی کے ساتھ زبانِ فرس کے اصول و ضوابط اور اُس کی صرف و نحو کے مدون کرنے کا شوق پہلے پہل لکھنؤ ہی میں شروع ہوا۔ اور وہ اُنہیں کے قلم سے ظاہر ہوا۔ اُن کی کتابیں اگر سچ پوچھیے تو بے مثال و لاجواب ہیں۔

اس کے بعد فارسی یہاں کی عام تعلیم میں داخل رہی۔ اور نصابِ فارسی ایسا بلیغ و دقیق رکھا گیا جو سچ یہ ہے کہ خود ایران کے نصاب سے زیادہ سخت تھا۔ ایران میں جیسا کہ ہر ملک کے لوگوں کا معمول ہے سیدھی سادی فصیح زبان جس میں صفائی کے ساتھ خیال آفرینی کی جائے پسند کی جاتی ہے۔ اور اُسی قسم کا نصاب بھی ہے۔ ہندوستان میں عرفی و فیضی اور ظہوری و نعمت خان عالی کے ایسے نازک خیال شعرا کا کلام داخلِ درس کیا گیا۔ ملا طغرا اور مصنفِ پنج رقعہ کے ایسے دقت پسندوں کا کلام پڑھا اور پڑھایا جانے لگا۔ جس سے دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کی زبان دانی اس آخر عہد میں خود ایران سے بڑھ گئی تھی۔ اور یہیں کے لوگوں نے فارسی کی تمام درسی کتابوں پر اعلیٰ درجے کی شرحیں لکھ ڈالیں تھیں۔ اور اُسی کا یہ حیرت خیز نتیجہ ہے کہ جب کہ دنیا کی تمام زبانوں کے شعرا اہلِ زبان ہی کے حلقے میں محدود رہتے ہیں، اور غیر اہلِ زبان میں اگر دو چار شاعر پیدا بھی ہو جاتے ہیں تو اہلِ زبان میں اُن کا اعتبار نہیں ہوتا۔ فارسی کے شعرا ایران سے زیادہ نہیں تو ایران کے برابر ہی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

خصوصاً گذشتہ صدی میں جب کہ ترقی و تعلیم کی دنیا میں لکھنؤ کا ڈنکا بج رہا تھا یہاں کا بچّہ بچّہ فارسی گو تھا۔ اور بھانڈ تک فارسی کی نقلیں کرتے تھے۔ قصباتِ اودھ کے تمام شرفا کا مہذب مشغلہ اور ذریعۂ معاش فارسی پڑھانا تھا۔ اور ایسے اعلیٰ درجے کے دیہاتی فارسی مدرس لکھنؤ کی گلیوں میں مارے مارے پھرتے تھے کہ اُن کی زبان دانی پر خود اہلِ عجم بھی عش عش کر جاتے۔ اُن کا لب و لہجہ اہلِ زبان کا سا نہ ہو مگر فارسی کے محاوروں اور بندشوں اور الفاظ کی تحقیق و تدقیق میں ان کو وہ درجہ حاصل تھا کہ معمولی اہلِ زبان کو بھی خاطر میں نہ لاتے تھے۔

(عبدالحلیم شرر لکھنوی کی کتاب ‘گذشتہ لکھنؤ سے مقتبس)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں