عبدالحمید متخلص بہ عدمؔ اردو کے قادر الکلام اور زود گو شاعر تھے۔ ایک دور تھا جب وہ بطور رومانوی شاعر بہت مقبول رہے۔ مختصر بحروں میں عدم کا کلام سلاست و روانی کا نمونہ ہے۔
یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک پارہ نقل کر رہے ہیں جو دل چسپ بھی ہے اور عدم کی شخصیت، ان کے مزاج سے متعلق ہے۔
عدم ان دنوں راولپنڈی میں تھے اور ملٹری اکاؤنٹس کے دفتر میں افسر تھے۔ صادق نسیم بھی اسی دفتر میں ملازم تھے۔ دونوں کا ٹھکانہ قریب قریب تھا۔ وہ صبح سویرے اکٹھے دفتر کے لیے پاپیادہ نکل کھڑے ہوتے تھے۔
صادق نسیم نے لکھا ہے کہ ایک صبح دفتر جاتے ہوئے انہیں ہوا کی تندی کا سامنا کرنا پڑا جو سامنے سے ان پر گویا جھپٹ رہی تھی۔ عدم نے چلتے چلتے سگریٹ نکالا اور دیا سلائی سے اُسے سلگانے کی کوشش کی مگر ہر دفعہ تیز ہوا دیا سلائی کو بجھا دیتی۔ اس پر عدم نے پورا یو ٹرن لے کر اپنی پیٹھ ہوا کی طرف کر کے سگریٹ سلگایا تو وہ سلگ اٹھا۔ اس پر وہ دوبارہ اپنا رخ دفتر کی طرف کرنے کی بجائے مزے سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے واپس گھر کی طرف چل پڑے۔ اس پر صادق نسیم نے پکار کے کہا ’’حضور! دفتر اس طرف ہے۔‘‘ عدم کہنے لگے۔ ’’ہوا مخالف ہے۔ مجھ سے دفتر نہیں جایا جاتا۔‘‘
صادق نسیم تو دفتر کی طرف بڑھ گئے مگر عدم واپس گھر جا پہنچے۔
فرصت کا وقت ڈھونڈ کے ملنا کبھی اجل
مجھ کو بھی کام ہے ابھی تجھ کو بھی کام ہے