اردو زبان کے مقبول رومانوی شاعر عبدالحمید عدمؔ کو قادر الکلام اور زود گو شاعر کہا جاتا ہے۔ عدم نے غزل جیسی مقبول صنف کو مختصر بحروں کے انتخاب کے ساتھ خوب برتا۔ ان کا انداز سادہ مگر دل نشیں ہے اور سلاست و روانی ان کے کلام کی وہ خوبی ہے جس نے انھیں ہم عصروں میں انفرادیت بخشی۔
عبدالحمید عدم کے متعدد اشعار زبان زدِ عام ہوئے۔ یہ اشعار ملاحظہ کیجیے۔
ہم مے کدے کی راہ سے ہو کر گزر گئے
ورنہ سفر حیات کا کتنا طویل تھا
شاید مجھے نکال کے پچھتا رہے ہوں آپ
محفل میں اس خیال سے پھر آگیا ہوں میں
عدمؔ خلوص کے بندوں میں ایک خامی ہے
ستم ظریف بڑے جلد باز ہوتے ہیں
عبدالحمید عدم 10 مارچ 1981ء کو طویل علالت کے بعد لاہور میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ یہاں ہم جمیل یوسف کی کتاب ’’باتیں کچھ ادبی کچھ بے ادبی کی‘‘ سے ایک واقعہ نقل کررہے ہیں جو عدم کی شخصیت اور ان کی مقبولیت سے متعلق ہے۔ یاد رہے کہ عدم بھی اکثر شعرا کی طرح مے نوش تھے اور اسی باعث ان کی عراقی نژاد بیوی نے ان سے علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
ایک شام میں نے عدم صاحب سے کہا، ’’عدم صاحب! یہاں ہیرا منڈی میں ایک گانے والی آپ کی غزلیں بڑے شوق سے گاتی ہے۔ اس کی دلی خواہش ہے کہ اُسے کبھی آپ کے سامنے بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملے۔‘‘
کہنے لگے ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ میں آپ کو اس گانے والی کے کوٹھے پر لے جاؤں۔ اگر آپ کو اس کی گائیکی پسند آ گئی اور آپ کو وہ محفل اچھی لگی تو میں بتا دوں گا کہ آپ سید عبدالحمید عدم ہیں ورنہ آپ کا تعارف کرائے بغیر وہاں سے اٹھ آئیں گے۔ کچھ سوچ بچار کے بعد عدم صاحب راضی ہو گئے۔ ہم کوٹھے پر جا پہنچے۔ جونہی میرے پیچھے لڑکھڑاتے ہوئے جھومتے جھامتے عدم صاحب تشریف لائے، اُن لوگوں نے فوراً انہیں پہچان لیا۔ ساز و آواز یک لخت خاموش ہوگئے۔ گانے والی پہلے تو اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھول کر حیرت سے عدم صاحب کو دیکھنے لگی پھر ایک دم اٹھ کر ان کے پاس آکر جھکی، ان کے پاؤں کو چھوا، اور ان کے ساتھ ہاتھ باندھ کر کھڑی ہو گئی۔
میں نے عدم صاحب کو بیٹھنے کو کہا۔ ایک بڑی بی نے عدم صاحب کو مخاطب کر کے کہا، ’’شاہ جی! تشریف رکھیں۔ یہ آپ نے بڑا کرم کیا جو ہم غریبوں کے گھر آئے ہیں۔‘‘
گانے والی کا چہرہ تو شرم و حیا سے لال ہو رہا تھا۔ میں حیران ہوا کہ بازار میں بیٹھی ہوئی ایک گانے والی عدم صاحب سے شرما رہی ہے۔ عدم صاحب بالکل خاموش، پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھ رہے تھے۔ کمرے میں کچھ دیر بالکل سکوت طاری رہا۔ پھر میں نے اس گانے والی سے کہا، ’’تمہیں بڑا شوق تھا کہ عدم صاحب کو ان کی غزلیں سناؤ۔ اب اپنا شوق پورا کر لو۔‘‘ پان اور کوک وغیرہ سے خاطر تواضع ہونے لگی۔ میں نے عدم صاحب پر نظر ڈالی۔ وہ بالکل گم صم بیٹھے تھے۔ جیسے وہاں موجود ہی نہ ہوں۔
بڑی بی نے کہا ’’شاہ جی فرمائیں۔ آپ کیسے ہیں۔‘‘ اس پر عدم تو بدستور خاموش رہے۔ میں نے کہا، ’’شاہ صاحب نے کیا فرمانا ہے۔ ہم تو سننے آئے ہیں۔ آپ عدم صاحب کو ان کی کوئی غزل سنوائیں۔‘‘ کچھ توقف کے بعد طبلے پر اچانک تھاپ پڑی اور ساز و آواز گونج اٹھے۔ اُس حسینہ نے سب سے پہلے عدم کی یہ مشہور غزل چھیڑی۔
یہ باتیں تری، یہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
یہ محفل دیر تک جمی رہی۔ عدم صاحب مبہوت بیٹھے رہے۔ زبان سے کچھ نہ بولے۔