مولانا عبدالمجید سالک 1922 میں تحریکِ خلافت کے سلسلے میں میانوالی جیل میں اسیر تھے۔
اس جیل میں نہ صرف وہ بلکہ مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا اختر علی خاں، مولانا داؤد غزنوی، مولوی لقاءُ اللہ پانی پتی، مولانا سید عطاءُ اللہ شاہ بخاری اور مولوی عبدالعزیز انصاری بھی مقید تھے۔
سالک صاحب مولانا احمد سعید کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ وہ ایک بلند پایہ عالمِ دین اور شیوہ بیاں خطیب ہونے کے باوجود ہم لوگوں میں بیٹھ کر دن بھر لطیفہ بازی کیا کرتے تھے بلکہ جب ہم رات کو وقت گزاری اور تفریح کے لیے قوّالی کرتے تو مولانا اس مجلس میں صدر کی حیثیت سے متمکن ہوتے۔
مولانا داؤد غزنوی اور مولوی عبدالعزیز انصاری بعض اوقات حال کھیلتے کھیلتے مولانا کی توند پر جا پڑتے۔ مولانا ہنستے بھی جاتے اور بُرا بھلا بھی کہتے جاتے۔
ایک دفعہ ہم نے مولانا کو ایک گیت سنانے پر مجبور کر دیا۔ مولانا نے بڑے مزے لے لے کر گایا۔
یہاں ہماری زندگی کا ایک خاص انداز شروع ہوا۔ میں نے اور عبدالعزیز انصاری صاحب نے مولانا احمد سعید سے عربی صَرف و نحو، ادب اور منطق کا سبق لینا شروع کیا۔ ایک آدھ گھنٹے پڑھ لیتے، پھر ایک دو گھنٹے آموختہ دہراتے اور اردو سے عربی میں ترجمہ کر کے مولانا کو دکھلاتے۔
مولانا کا اندازِ تدریس اگرچہ وہی اساتذہ قدیم کا سا تھا، لیکن وہ اس میں خاص دل آویزی پیدا کردیتے تھے جس سے بیزاری اور ناگواری کا شائبہ تک نہ ہوتا تھا اور ہم لوگ بے تکان پڑھتے چلے جاتے تھے۔
راوی: عبدالمجید قریشی