اتوار, اپریل 20, 2025
اشتہار

الفاظ کا جادو

اشتہار

حیرت انگیز

انگریزی زبان سے ہماری مرعوبیت اور اپنی قومی زبان اردو سے بے اعتنائی اور اس سے دوری کی ایک وجہ ہمارا وہ احساسِ کمتری بھی ہے جس کی ابتدا ہندوستان پر برطانوی راج کے زمانے میں ہوگئی تھی اور معاشرہ مغربی تہذیب و ثقافت سے متأثر ہونے لگا تھا۔

مولانا عبد الماجد دریا بادی 1977ء میں انتقال کرگئے تھے۔ وہ اپنے وقت کے ایک بے مثل ادیب، جیّد صحافی، نقاد، محقق اور مفسرِ قرآن تھے۔ مولانا کو ایک مصلح اور اپنی قوم کا خیرخواہ بھی سمجھا جاتا ہے جن کے ایک شگفتہ مضمون سے یہ اقتباسات اس دور میں‌ انگریزی زبان کے زیرِ اثر لوگوں‌ کے خیالات میں تبدیلی سے آگاہ کرتے ہیں۔

عبدالماجد دریا بادی لکھتے ہیں: اگر آپ کا تعلق اونچے طبقہ سے ہے تو کسی ’’سرا‘‘ میں ٹھہرنا آپ کے لیے باعث توہین، لیکن کسی ’’ہوٹل‘‘ میں قیام کرنا ذرا بھی باعث شرم نہیں، حالاں‌ کہ دونوں میں کیا فرق بجز اس کے ہے کہ ’’سرا‘‘ مشرقی ہے، ہندوستانی ہے، دیسی ہے اور ’’ہوٹل‘‘ مغربی ہے، انگریزی ہے، ولایتی ہے۔

کوئی اگر یہ کہہ دے کہ ’’سرا‘‘ کے فلاں ’’بھٹیارے‘‘ سے آپ کا یارانہ ہے تو آپ اس کا منہ نوچ لینے کو تیار ہو جائیں لیکن فلاں ہوٹل کے منیجر سے آپ کا بڑا ربط و ضبط ہے اسے آپ فخریہ تسلیم کرتے ہیں۔ حالانکہ سرا کے ’’بھٹیارے‘‘ اور ہوٹل کے ’’منیجر‘‘ کے درمیان بجز ایک کے دیسی اور دوسرے کے ولایتی ہونے کے اور کوئی فرق ہے؟ کسی مدرسہ میں اگر آپ ’’مدرس‘‘ ہیں تو بات کچھ معمولی ہی ہے، لیکن کسی ’’کالج‘‘ میں آپ ’’لیکچرار‘‘ یا ’’پروفیسر‘‘ ہیں تو معزّز ہیں، صاحبِ وجاہت ہیں، حالانکہ اپنے اصل مفہوم کے اعتبار سے ’’مدرّس‘‘ اور پروفیسر‘‘ ایک ہی چیز ہیں۔

ندوہ کے ’’دارُالاقامہ‘‘ میں اگر آپ قیام پذیر ہیں تو آپ کا دل کچھ خوش نہیں ہوتا لیکن اسی ’’دارُالاقامہ‘‘ کا نام جب آپ ’’شبلی ہوسٹل‘‘ سنتے ہیں تو آپ کا چہرہ فخر و خوشی سے دمکنے لگتا ہے۔ ’’مدرسہ‘‘ میں اگر آپ پڑھتے یا پڑھاتے ہیں تو خود اپنی نظروں میں آپ بے وقعت ہیں لیکن اگر آپ کا تعلق کسی ’’کالج‘‘ سے ہے تو پھر آپ سے زیادہ معزّز کون ہے؟ اب ہر مدرسہ طبیہ، طبیہ اسکول اور ’’مدرسہ تکمیلُ الطّب‘‘ اور ’’مدرسہ منبع الطّب‘‘ اب ’’تکمیل الطّب کالج‘‘ اور ’’منبع الطّب کالج‘‘ ہیں۔ مدرسہ وہاجیہ طبیہ کا زمانہ گیا۔ اب اس کا صحیح نام طبیہ وہاجیہ ’’کالج‘‘ ہے۔ طبی درس گاہوں کو چھوڑیے، خود دینی درس گاہوں کا کیا حال ہے؟ وہ دن گئے جب زبانوں پر ’’مدرسہ چشمۂ رحمت‘‘ کا تذکرہ تھا۔ اب وہ چشمۂ رحمت کالج ہے اور وہاں کے صدر مدرّس ’’پرنسپل‘‘ صاحب ہیں۔ مدرسۂ نظامیہ فرنگی محل کے سب سے بڑے استاد کو ’’صدر مدرّس‘‘ ذرا کہہ کے تو دیکھیے آپ کی غلطی کی تصحیح کی جائے گی کہ ان کا عہدہ اب صدر مدرسی کا نہیں ’’پرنسپلی‘‘ کا ہے۔

کوئی آپ سے کہے کہ یہ کیا آپ گلی میں کھڑے ہوکر ’’گلی ڈنڈا‘‘ کا تماشہ دیکھ رہے ہیں تو آپ شرما سے جائیں گے، لیکن آپ ’’کرکٹ‘‘ یا ’’فٹ بال‘‘ یا ہاکی کی میچ کھلے میدان میں دیکھ رہے ہوں گے، تو اس وقت نہ آپ اپنے بڑوں سے شرمائیں گے نہ چھوٹوں سے بلکہ عجب نہیں کہ گراں قدر ٹکٹ خریدنے کے بعد دوسروں کی طرف اکڑ کر دیکھیں۔ مینڈھے لڑاتے ہوئے یا بٹیر بازی یا مرغ بازی کرتے ہوئے اگر آپ کہیں پکڑ لیے گئے تو اپنے کو کسی کے سامنے منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھیں گے لیکن جب شہر میں باکسنگ کا مقابلہ ہوگا یا کوئی HEAVY WEIGHT CHAMPION آ جائیں گے تو ان کا تماشہ دیکھنا تہذیب و روشن خیالی میں داخل۔ کہیں چوری چھپے ’’رہس‘‘ یا ’’نوٹنکی‘‘ دیکھنے کھڑے ہوجائیے تو خود آپ کی ثقافت اور وضع داری آپ پر لاحول پڑھنے لگے لیکن تھیٹر میں آدھی آدھی رات بے تکلف بسر کیجیے کہ ’’ڈراما‘‘ جیسے فنِ شریف کی شرافت و عظمت میں کسی کو کلام ہو سکتا ہے؟

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں