عبداللہ حسین کا ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پاکستان میں جہاں ادب کے قارئین میں مقبول ہوا، وہیں اس نے فکشن کے ناقدین کی توجہ بھی حاصل کی اور عبداللہ حسین کی شہرت اور پہچان کا سفر شروع ہوا۔
اداس نسلیں اور باگھ جیسے مقبول ناولوں کے خالق عبداللہ حسین 2015ء میں آج ہی کے روز دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔ ان کی عمر 84 برس تھی۔ عبداللہ حسین 14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایکسائز انسپکٹر تھے۔ عبداللہ حسین اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے جن کا نام محمد خان رکھا گیا۔ ان کے آبا و اجداد کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تھا۔ ابتدائی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی اور گریجویشن کے بعد نوکری کرنے لگے۔ عبداللہ حسین نے اپنی زندگی کے کئی سال انگلینڈ میں بھی گزارے۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز مختلف جرائد میں کہانیاں لکھنے سے ہوا اور پھر قلمی نام عبداللہ حسین سے اپنی شہرت کا وہ سفر شروع کیا جس میں ان کے متعدد ناول، ناولٹ اور افسانے قارئین تک پہنچتے رہے۔ 1963ء میں ان کا مشہور ناول ’’اداس نسلیں‘‘ منظر عام پر آیا تھا۔ اس کے بعد افسانوی مجموعہ اور ناول ’’باگھ‘‘ و دیگر کہانیاں کتابی شکل میں سامنے آتی رہیں۔ عبداللہ حسین کو ان کے ناول ’’اداس نسلیں‘‘ پر آدم جی ادبی انعام دیا گیا۔
ناول نگار عبداللہ حسین کے تخلیقی سفر کی ابتدا اور قلم سے ان کے تعلق کی کہانی بھی ایک دل چسپ قصّہ ہے۔ یہ قصہ انہی کی زبانی سنتے ہیں:
مجھے پہلی ملازمت ملی اور میں کام پر گیا تو وہاں روزانہ چھے، آٹھ گھنٹے ایسے ہوتے تھے، جن میں کوئی کام نہیں ہوتا تھا۔
یہ بات جان لیں کہ جہاں سیمنٹ فیکٹری ہوتی ہے، وہ ایک مکمل سنگلاخ یا پہاڑی علاقہ ہوتا ہے اور ایسا ویران کہ عام طور پر درخت تک نہیں ہوتے۔ چند دن یونہی گزر گئے، پھر میں نے سوچا کہ کچھ لکھنا چاہیے، لکھنے بیٹھا تو خیال آیا کہ کہانی لکھوں۔ کہانی شروع کی اور کہانی چلی تو چلتی چلی گئی اور مجھے لگا کہ میں نے ایک مصیبت گلے میں ڈال لی ہے، خیر میں نے سوچا کہ دیکھتے ہیں یہ کہاں تک جاتی ہے اور وہ بڑھتے بڑھتے سیکڑوں صفحوں پر پھیل گئی۔ جب اسے پڑھا اور دیکھا تو خیال ہوا کہ یہ تو ناول سا بن گیا ہے اور اچھا بھی لگ رہا ہے۔
لاہور میں چار جاننے والوں سے بات کی تو انھوں نے کتابیں چھاپنے والے ادارے کا بتایا۔ میں نے جا کر ناول ان کو دے دیا، انھوں کہا چند ہفتوں میں بتاتے ہیں کہ چھاپیں گے یا نہیں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔ چند ہفتوں بعد معلوم کیا تو انھوں نے بتایا کہ ناول تو ٹھیک ہے اور ہم چھاپیں گے بھی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو کوئی جانتا نہیں۔ اس لیے پہلے آپ کچھ کہانیاں لکھ کر دیں، ہم انھیں چھاپیں گے، اس طرح لوگ آپ کو جاننے لگیں گے اور پھر ہم اس ناول کو چھاپ دیں گے۔
میں نے انھیں کہانی لکھ کر دی۔ یہ کہانی ‘‘ندی’’ کے نام سے ان کے رسالے سویرا میں چھپی۔ اس کے بعد میں نے ان سے جا کر پوچھا کہ اور کہانی کب دینی ہے تو انھوں نے کہا اس کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ چاہیں تو اور لکھیں، نہ چاہیں تو نہ لکھیں۔ ناول کی اشاعت کے لیے جتنی پہچان چاہیے وہ تو اس ایک کہانی نے ہی آپ کو دلا دی ہے۔ اس طرح ناول چھپ گیا۔ یہ بات تو بعد میں پتا چلی کہ جب میں انھیں ناول دیا تو انھوں نے اسے حنیف رامے، محمد سلیم الرحمٰن اور صلاح الدین کو پڑھنے کے لیے دیا اور انھوں نے رائے دی تھی کہ ناول اچھا ہے، اسے چھپنا چاہیے۔
اپنے انگریزی ناول کے بارے میں انھوں بتایا کہ جب وہ لندن گئے اور وہاں ایک بار لے لیا تو ان لوگوں کے بارے میں لکھنے کا سوچا جو ہمارے ہاں سے غیر قانونی طور پر جاتے ہیں اور پھر وہاں چھپ کر رہتے ہیں۔ لندن میں ان کے بار میں ایسے لوگ بھی آتے تھے جن کا ادب، آرٹ اور فلم وغیرہ سے تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا، ایک نوجوان ڈائریکٹر، جو خاصا نام بنا چکا تھا، اس نے ایک رسالے پر میری تصویر دیکھی تو پوچھا کہ یہ تصویر کیوں چھپی ہے، میں نے اسے بتایا کہ یہ ادبی رسالہ ہے اور میں ادیب ہوں۔
اس نے یہ سنا تو مجھ سے میری تخلیقات اور موضوعات کے بارے میں تفصیل سے بات کی۔ میں نے بتایا کہ ان دنوں ایک ناولٹ بھی لکھ رہا ہوں۔ اس کے پوچھنے پر میں نے مختصراً کہانی بھی بتا دی۔ ڈائریکٹر نے مجھ سے ایک صفحے کا سناپسس لکھوایا اور فلم ساز کے پاس لے گیا۔ اسے کہانی پسند آئی اور یوں اس پر فیچر فلم بن گئی۔