دنیا میں پیدا ہونے والا ہر بچہ انسانیت کے لیے ایک نئی امید کے ساتھ جنم لیتا ہے، لیکن ایسے کروڑوں بچے بھی مردہ حالت میں دنیا میں آ جاتے ہیں جو ’ان چاہے‘ ہوتے ہیں، ان چاہے حمل کے نتیجے میں بننے والے ان بچوں کو پیدائش سے قبل ہی کوکھ کے اندر مار دیا جاتا ہے۔
اسقاط حمل ماں کی کوکھ میں موجود جنین کو ہٹا کر حمل ختم کرنے کو کہا جاتا ہے، اگرچہ ایسا بغیر کسی مداخلت کے بھی ہو سکتا ہے جسے ’از خود اسقاط حمل‘ کہا جاتا ہے، اور یہ حمل کے تمام کیسز میں 30 تا 40 فی صد ہوتے ہیں۔ تاہم، دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی مداخلت کے ذریعے بڑی تعداد میں اسقاط حمل کی غیر قانونی پریکٹس جاری ہے، امریکا میں تو ان دنوں سپریم کورٹ میں اسقاط حمل کی قانونی حیثیت پر ایک بار پھر کیس کھل گیا ہے۔
پاکستان میں ہر سال لاکھوں بچوں کو ماں کی کوکھ ہی میں قتل کردیا جاتا ہے، وہ دنیا میں آنکھیں کھولنے سے قبل ہی اسقاط حمل کا شکار ہو جاتے ہیں، اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ان میں ایسے سیکڑوں انسانی وجود وہ ہیں جنھیں کچرہ کنڈیوں میں پھینک دیا جاتا ہے، اور ریسکیو اداروں کے اہل کار انھیں وہاں سے اٹھاتے نظر آتے ہیں۔
کچرہ کنڈیوں میں پھینکے ہوئے انسانی وجود
ایدھی فاؤنڈیشن کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں سالانہ 1500 سے زائد نومولود بچوں کو ویران جگہوں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں پر پھینک دیا جاتا ہے۔
معروف تحقیقاتی ادارے پاپولیشن کونسل اور نیشنل لائبریری آف میڈیسن کے مطابق پاکستان میں سالانہ اسقاط حمل کی تعداد تقریباً 25 لاکھ سے زائد ہے، اور ان میں سے 99 فی صد مشکوک حالات میں کیے جاتے ہیں، یعنی لاکھوں معصوم جانیں دنیا میں پہلا سانس لینے سے قبل ہی ختم کر دی جاتی ہیں۔
فیصل ایدھی نے بتایا کہ پاکستان میں اسقاط حمل غیر قانونی ہے، اس لیے انھیں پھینکنا پڑتا ہے، دفن نہیں کر سکتے۔ کیوں کہ جب انھیں دفن کرنے قبرستان جاتے ہیں تو آپ سے ڈیتھ سرٹیفکیٹ مانگی جاتی ہے۔ غیر قانونی اسقاط حمل میں بچہ تو مرتا ہی مرتا ہے لیکن ماں کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ زچگی کے عمل کے دوران بھی ہر سال 7 لاکھ زچہ و بچہ کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہتی ہیں، اور 15 سال سے زیادہ عمر کی ہر ایک ہزار عورتوں یا لڑکیوں میں یہ شرح 50 فی صد تک ہے۔
سینیئر گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شاہین کہتی ہیں کہ اسقاط حمل ان کیسز میں ہوتا ہے جن میں حمل ’اَن چاہا‘ ہوتا ہے، یعنی نہ بچہ عورت کو چاہیے ہوتا ہے نہ مرد کو۔
میٹرنٹی ہومز
پاکستان میں اسقاط حمل قانونی اور شرعی طور پر جرم ہے مگر اس کے باوجود ملک بھر میں ہزاروں ایسے میٹرنٹی ہومز ہیں جو اسقاط حمل کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں۔
ملک بھر میں ایسے ہزاروں جعلی میٹرنٹی ہومز کام کر رہے ہیں جہاں ان پڑھ اور ایل ایچ وی اسقاط حمل کرتے ہیں اور اس طرح خواتین کی زندگی داؤ پر لگا دی جاتی ہے، غیر سند یافتہ لیڈی ڈاکٹرز ان میٹرنٹی ہومز میں آپریشن بھی کرتی ہیں جس کی وجہ سے خواتین کے ہلاک ہونے کے کیسز بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔
سندھ پولیس
سندھ پولیس نے حال ہی میں نوزائیدہ بچوں کی لاشوں کو کچرا کنڈیوں میں پینھکنے کے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کے احکامات جاری کیے ہیں۔
غیر ارادی حمل
امریکا اور ترقی پذیر ممالک میں جنسی صحت اور تولیدی حقوق کے سلسلے میں ریسرچ کرنے والے غیر منافع بخش ادارے ’’گٹ میچر‘‘ کے مطابق پاکستان میں پچھلے چند سالوں میں اسقاط حمل میں 64 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’’پاکستان میں 1990-1994 اور 2015-2019 کے درمیان غیر ارادی حمل (unintended pregnancy) کی شرح میں 21 فی صد کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم اسی عرصے کے دوران اسقاط حمل کی شرح میں 64 فی صد اضافہ ہوا۔ اسقاط حمل پر ختم ہونے والے غیر ارادی حمل کا حصہ 30 فی صد سے بڑھ کر 61 فی صد ہو گیا۔‘‘
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان سمیت جنوبی ایشیائی ممالک میں حمل ضائع کرنے والے زیادہ تر خواتین شادی شدہ اور عمر کے متوسط مرحلے میں ہوتی ہیں، اور یہ عورتیں حمل ضائع کرنے کی عموماً دو وجوہ بتاتی ہیں: ایک یہ کہ وہ غریب ہیں، دوم یہ کہ انھیں مزید بچے نہیں چاہیئں۔