آج نوجوان نسل کے لیے کئی قابل و باصلاحیت ہستیوں کے نام نامانوس یا ایسے ہیں جن کی شخصیت اور کارناموں سے وہ واقف نہیں، لیکن ایک دور تھا جب اے بی اے حلیم جیسے کئی دوسرے نام علمی و ادبی حلقوں کے ساتھ اساتذہ اور طلبہ میں بھی اپنا تعارف رکھتے تھے۔ ہم تذکرہ کررہے ہیں پروفیسر ابوبکر احمد حلیم کا جو ایک ماہرِ تعلیم، تاریخ داں اور تحریکِ پاکستان کے اکابرین میں شامل تھے۔
انھیں اکثر اے بی اے حلیم لکھا جاتا ہے جب کہ احتراماً انھیں قریبی لوگوں میں ابا حلیم کے نام یاد کیا جاتا تھا۔ درس و تدریس، حسنِ انتظام اور نظم و ضبط کے ساتھ ابا حلیم اپنے اعلیٰ اخلاق اور نفاست و خوش پوشاکی کے لیے بھی مشہور رہے۔ پروفیسر صاحب ہندوستان میں شعبۂ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سربراہ اور وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی رہنے کے علاوہ کراچی یونیورسٹی کے قیام کے بعد پہلے شیخ الجامعہ بھی تھے۔
ابوبکر احمد حلیم یکم مارچ 1897ء کو ارکی، جہان آباد (بہار) میں پیدا ہوئے۔ پٹنہ یونیورسٹی اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ 1921ء میں ہندوستان لوٹے تو یہاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بطور معلّم عملی زندگی کا آغاز کیا۔ 1923ء میں اسی درس گاہ میں شعبۂ تاریخ اور سیاسیات کے پروفیسر اور پھر صدر نشیں بنے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 1944ء تک خدمات انجام دیں۔ 1942ء میں انھیں متحدہ ہندوستان کے انٹر یونیورسٹی بورڈ کا چیئرمین مقرر کیا گیا تھا۔ اس وقت تک وہ مسلمانوں کی سیاسی، سماجی اور تعلیمی حالت بہتر بنانے کے لیے منعقدہ جلسوں اور کانفرنسوں میں شرکت کرنے لگے تھے۔ 1944ء میں اے بی اے حلیم نے باقاعدہ سیاست کے میدان میں قدم رکھا اور اس پلیٹ فارم سے فعال کردار ادا کرنے لگے۔ انھوں نے تحریک پاکستان کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ 1944ء سے 1945ء تک وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی منصوبہ بندی کمیٹی کے سیکرٹری کے عہدے پر رہے۔ 1945 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ٹکٹ پر قانون ساز اسمبلی کے رکن بنے۔ وہ مسلم لیگ کی تعلیمی کمیٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔ 1945ء میں شملہ کانفرنس کے دوران میں قائد اعظم محمد علی جناح نے اے بی اے حلیم کو اپنا آئینی مشیر بھی مقرر کیا۔ تقسیم ہند کے بعد 1947ء میں انھیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا گیا تھا جہاں وہ 1951ء تک خدمات انجام دیتے رہے۔ جب جامعہ سندھ حیدرآباد (جامشورو) منتقل ہو گئی تو جامعہ کراچی کا قیام عمل میں آیا۔ یہ جامعہ چاند بی بی روڈ پر ایک مخدوش اسکول کے چند کمروں میں قائم کی گئی تھی اور اس دور میں پروفیسر ابوبکر احمد حلیم کئی ماہ تک اپنے گھر کا برامدہ اس جامعہ کے دفتر کے طور پر استعمال کرتے رہے۔ بعد میں باقاعدہ عمارت لے کر جامعہ کراچی کو مستحکم کیا گیا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے پہلے وائس چانسلر مقرر ہوگئے۔ اے بی اے حلیم اپنے اس عہدے سے سبک دوش ہونے کے بعد موتمرِ عالم اسلامی سے وابستہ ہوئے اور تا دمِ آخر اس سے منسلک رہے۔
پروفیسر صاحب کا انتقال 20 اپریل 1975ء کو ہوا۔ آج ان کی برسی ہے۔ اے بی اے حلیم کی وفات کے بعد یادگاری جلسوں میں ان کی علمی و تحریکی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا۔ محکمۂ ڈاک نے 2003ء میں اے بی اے حلیم کی برسی پر یادگاری ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا تھا۔