بازار میں وہی جنس رکھی جاتی ہے، جس کی مانگ ہوتی ہے اور چوں کہ مانگ ہوتی ہے، اس لیے ہر ہاتھ اس کی طرف بڑھتا ہے اور ہر آنکھ اسے قبول کرتی ہے، مگر میرا معاملہ اس سے بالکل الٹ رہا۔
جس جنس کی بھی عام مانگ ہوئی، میری ’دکان‘ میں جگہ نہ پا سکی۔ لوگ زمانہ کے روز بازار میں ایسی چیزیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائیں گے، جن کا رواج عام ہو۔ میں نے ہمیشہ ایسی جنس ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کی، جس کا کہیں رواج نہ ہو۔ اوروں کے لیے پسند و انتحاب میں جو علّت ہوئی، وہی میرے لیے ترک و اعراض کی علّت بن گئی۔ انھوں نے دکانوں میں ایسا سامان سجایا، جس کے لیے سب کے ہاتھ بڑھیں۔ میں نے کوئی چیز ایسی رکھی ہی نہیں، جس کے لیے سب کے ہاتھ بڑھ سکیں۔ لوگ بازار میں دکان لگاتے ہیں، تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگاتے ہیں، جہاں خریداروں کی بھیڑ لگتی ہو۔ میں نے جس دن اپنی دکان لگائی، تو ایسی جگہ ڈھونڈ کر لگائی، جہاں کم سے کم گاہکوں کا گزر ہوسکے۔
مذہب میں، ادب میں، سیاست میں، فکر و نظر کی عام راہوں میں، جس طرف بھی نکل پڑا، اکیلا ہی نکل پڑا۔ کسی راہ میں بھی وقت کے قافلوں کا ساتھ نہ دے سکا۔
(از قلم مولانا ابوالکلام آزاد)