پیر, مئی 19, 2025
اشتہار

پاکستان اور ابوالکلام آزاد کی برہمی

اشتہار

حیرت انگیز

مولانا ابوالکلام آزاد کو ہندوستان بھر میں بے پناہ شہرت اور عزت ملی۔ وہ ایک قوم پرست ہندوستانی تھے۔

مولانا آزاد کو ان کی سیاسی بصیرت، دینی فہم، علمی و ادبی کاوشوں کی وجہ سے بھی شہرت ملی۔ وہ سعودی عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے تھے۔ عربی زبان پر عبور رکھنے والے مولانا آزاد کئی کتابوں کے مصنّف تھے۔ آزاد، ان چند بڑے ہندوستانی لیڈروں میں سے تھے جن کو مسلم لیڈر کہلوانا پسند نہیں تھا اور انھیں ایک قوم پرست کے طور پر پہچانا گیا۔ تقسیمِ ہند کی مخالفت کرنے والے مولانا آزاد نے بٹوارے کے اعلان کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمانوں کو بھی پاکستان نہ جانے کا مشورہ دیا لیکن بعد میں انھوں نے پاکستان کو ایک مملکت اور خودمختار ریاست کی حیثیت سے دیکھا اور اس کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا تو کئی لیڈر اور عام مسلمان بھی جو ان کے مخالف ہوچکے تھے، حیران رہ گئے۔ تحریکِ آزادی کے اس مقبول لیڈر کی جماعت کانگریس تھی اور وہ گاندھی کے ساتھ رہے تھے۔ پاکستان کے متعلق مولانا آزاد کی رائے اور ان کے جذبات کیا تھے، یہ ایک واقعہ کی شکل میں پیشِ‌ خدمت ہے۔

پنجاب یونیورسٹی نے ان دنوں جرمن اور فرانسیسی پڑھانے کے لیے شام کی کلاسیں شروع کی ہوئی تھیں۔ میں نے اور میرے رفیقِ کار محمد اجمل نے جرمن کلاس میں داخلہ لے لیا۔

ڈاکٹر بی اے قریشی جو اسلامیہ کالج لاہور کے پرنسپل رہ چکے تھے، ہمارے استاد تھے۔ ڈاکٹر صاحب جو غازی آباد کے رہنے والے تھے خاصا عرصہ برلن میں گزار چکے تھے۔ ایک مرتبہ کئی روز بعد کلاس میں آئے۔ واپسی پر ہم نے سبب پوچھا۔ تو کہنے لگے ”دلّی چلا گیا تھا۔“

دلّی ان دنوں آنا جانا روز کا معمول تھا۔ لوگ احتیاطاً صرف اتنا دیکھ لیتے کہ امن و امان کی صورت کیا ہے؟ کیوں کہ وہاں سے اچھی خبریں نہیں آ رہی تھیں۔ اس لیے ہم نے پوچھا، ”دلّی میں قیام کہاں رہا…؟“ کہنے لگے، ”مولانا آزاد کے ہاں…“

یہ سن کر اشتیاق بڑھا، تو میں نے پوچھا: ”مولانا کا خیال پاکستان کے بارے میں کیا ہے؟“ کہنے لگے: ”میرے روبرو ایک صاحب لاہور سے وارد ہوئے تھے۔ مولانا نے ان سے پوچھا ’کہیے لاہور ان دنوں کیسا ہے…؟‘ تو وہ صاحب کہنے لگے، بڑی ناگفتہ بہ حالت ہے، ہمیں تو پاکستان چلتا دکھائی نہیں دیتا…‘ ان کے اتنا کہنے پر مولانا کا مزاج برہم ہو گیا اور وہ جوش میں آ کے کہنے لگے، ’جائیے واپس، لاہور اور پاکستان کو چلائیے۔ اب اگر پاکستان مٹ گیا، تو ایشیا سے مسلمان کا نام مٹ جائے گا۔“

یہ گفتگو ہمارے لیے تعجب کا باعث تھی، اس لیے کہ ہم مولانا کو اور ہی رنگ میں دیکھنے کے عادی تھے۔ کئی برس گزرے ایک محفل میں، میں نے اس واقعہ کو دہرایا۔ وہاں اتفاق سے ہمارے دفتر کے فورمین محمد عثمان بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ عثمان ہمارے ساتھ ’ڈان‘ (دلّی) میں کام کر چکے تھے۔ ان کی ہمدردیاں جمعیت علمائے ہند کے ساتھ تھیں۔ اس لیے وہ پاکستان بن جانے کے بعد بھی کچھ عرصہ دلّی میں ٹھیرے رہے۔ پہلی عید الفطر کے روز وہ آصف علی کے مکان پر قوم پرست، مسلمان راہ نماؤں سے عید ملنے گئے۔ مولانا بھی وہاں موجود تھے۔ پاکستان کا ذکر آیا تو کہنے لگے کہ ”مسلمانانِ عالم کی فلاح اسی میں ہے کہ پاکستان مستحکم ہو اور پھلے پھولے۔“

(مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے ماخوذ)

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں