اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔ سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدراحتساب عدالت میں پیش ہوئے۔
احتساب عدالت میں فلیگ شپ انویسمنٹ کے تحت کمپنیوں کی فنانشل دستاویز اور آف شورکمپنیوں سے متعلق فلو چارٹ عدالت میں پیش کیا گیا۔
سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے چارٹ کی کاپی نہ دینے پر اعتراض کیا جس پر عدالت نے انہیں کاپی فراہم کرنے کی ہدایت کردی۔
پاناما جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء جےآئی ٹی کے والیم 3 کی روشنی میں اپنا بیان قلمبند کرا رہے ہیں جبکہ متحدہ عرب امارات سفارت خانے کا جوابی خط عدالت میں پیش کیا گیا جس پرامجد پرویز نے سوال کیا کہ وہ لیٹرکہاں ہے جس کے جواب میں یہ خط آیا؟۔
جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء نے جواب دیا کہ وہ لیٹرجس کا یہ جواب ہے وہ والیم 10 میں موجود ہے، مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ وہ لیٹرجس کا یہ جواب ہے وہ والیم 10میں موجود ہے، والیم3 دیا گیا اس میں بھی جوابی خط کی کاپی نہیں ہے۔
واجد ضیاء کی جانب سے لندن فلیٹ ریفرنس سے متعلق دستاویزات پیش کی گئیں جس پر امجد پرویز نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کچھ دستاویزات توعربی میں ہیں، ہمیں توسمجھ نہیں آرہی شاید واجدضیا کوعربی سمجھ آئے۔
مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ شاید واجدضیاء نےعربی میں ڈگری حاصل کی ہوگی، جےآئی ٹی کے خطوط کے جواب میں برطانوی ایم ایل اے کاجوابی خط بھی پیش کیا گیا جس پرامجد پرویز نے کہا کہ ہمیں وہ خط نہیں دیے گئے جن کے جواب میں یہ خط آئے ہیں، کیسے پتہ لگے گا یہ کون سے خط کا جواب ہے۔
عدالت میں کیپٹل ایف زیڈای میں نوازشریف کی ملازمت سے متعلق اقاما اورجبل علی فری زون اتھارٹی کی جانب سے تصدیق شدہ سرٹیفکیٹ کے ساتھ نوازشریف کا کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا کنٹریکٹ بھی عدالت میں پیش کیا گیا۔
مریم نواز کے وکیل نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ قانونی شہادت کے تحت دستاویزکو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا اور دستاویزات نوٹری پبلک، پاکستان قونصل، ڈپلومیٹک تصدیق شدہ نہیں ہیں۔
واجد ضیاء نے عدالت کو بتایا کہ جفزا اتھارٹی کے لیٹرمیں ملازمت کی تصدیق کی گئی، خط کے مطابق نوازشریف کمپنی کے بورڈچیئرمین تھے اور ماہانہ 10 ہزاردرہم تنخواہ وصول کررہے تھے۔
مریم نواز کے وکیل نے جفزا اتھارٹی کے خط پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کیسےثابت ہوگا کہ یہ پبلک دستاویز ہے، اس خط کوکہیں سے لیگلائزبھی نہیں کرایا گیا، اس سے یہ بھی پتہ نہیں چلتا یہ خط کسے لکھا گیا ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جفزا ویسے ہی اتھارٹی ہے جیسے پاکستان میں ایس ای سی پی ہے جس پر امجد پرویز نے کہا کہ یہ کیسے ثابت ہوگا جےآئی ٹی ممبران نے جفزااتھارٹی سے یہ خط لیا، عدالت نے امجدپرویزکے اعتراض کو دستاویزکے ریکارڈ کاحصہ بنا دیا۔
سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے احتساب عدالت میں متفرق درخواست دائر کردی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ طے کرلیا جائے واجدضیاء کون سی چیزیں ریکارڈ پرلاسکتے ہیں۔
مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ پہلےبھی2 باراس بات پربحث ہوچکی ہے، ہماری طرف سے زبانی استدعا کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کے وکیل کی جانب سے تحریری درخواست جمع کرائی گئی۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ پہلے اس درخواست پربحث کرلیں، عدالت نے نوازشریف کی درخواست پرفیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت کی جانب سے فیصلہ کل سنائے جانے کا امکان ہے۔
بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت 22 مارچ تک ملتوی کردی۔
خیال رہے کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا بیان گزشتہ 3 سماعتوں سے جاری ہے، بیان مکمل ہونے پر مریم نواز کے وکیل امجد پرویز جرح کریں گے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی جانب سے اصل قطری خط عدالت میں پیش کیا گیا تھا جبکہ لفافے پرقطری خط اصل ہونے کی سپریم کورٹ کے رجسٹرارکی تصدیق تھی۔
احتساب عدالت نے پاناما جے آئی ٹی سربراہ سے استفسار کیا تھا کہ یہ وہ خط نہیں ہے جس کی نقل کل عدالت میں پیش کی گئی تھی جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا تھا کہ اصل خط سربمہرلفافے میں تھا، میراخیال تھا یہ کل والے خط کا اصل ہے۔
مریم نواز کے وکیل امجد پرویز کی جانب سے واجد ضیاء کے پیش کیے گئے خط پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ پہلے کہا گیا تھا یہ کل والے خط کی اصل ہے اور اب کہا جا رہا ہے یہ کل والے خط کی اصل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کی مریم نواز کی درخواست جزوی طور پرمنظورکرلی تھی۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔