تہران : ایران میں تیزاب گردی کا شکار ہونے والے افراد نے اپنے جذبات، احساسات اور خیالات کو کینوس پر رنگوں اور برش کی مدد سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، ان پیٹنگز کو نمائش کے لیے آشیانہ گیلری تہران میں پیش کیا گیا.
چہرہ جسم کا سب خوبصورت حصہ ہوتا ہے، یہ انسان کی شناخت بھی ہے اور اسی چہرے سے اپنے قلبی تاثرات کو عیاں کرتا ہے، خوشی کے لمحات ہوں یا غم کی تصویر، چہرے سے صاف عیاں ہوتی ہے لیکن ہمارے اردگرد ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو اپنے احساسات تو دور اپنے چہرے کوبھی چھپائے ہوئے پھرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اپنے ہی کسی پیارے نے تیزاب پھینک کر چہرے سے روح تک کو مسخ کردیا ہوتا ہے.
ایران میں تیزاب گردی کے شکار ایک گروپ نے اپنی تکلیف کو قسمت کا لکھا سمجھ کر زندگی بھر کا رونا رونے کے بجائے اپنے احساسات اور تکلیف کو دنیا کے سامنے لانے کا فیصلہ کیا تاکہ جھلسے ہوئے چہرے والے افراد کی کچلی ہوئی روح کا نوحہ سنا جا سکے، محسن مرتضوی اور معصومہ اتائی نے اپنی جیسے بربریت کے شکار دیگر سانجھے داروں کے ساتھ مل کر پینٹنگ نمائش کا اہتمام کیا.
اس اچھوتے خیال کے خالق محسن مرتضوی تھے جنہیں ان کے ایک حاسد کولیگ نے تیزاب گردی کا نشانہ بنایا تھا جس کے باعث ان کا پورا چہرہ جھلس گیا تھا، محسن لکڑی کو تراش کر دیدہ زیب فن پارے بنانے میں مہارت رکھتے تھے، خوش قسمتی انہیں اپنی ہم خیال معصومہ اتائی تک لے آئی، معصومہ کی ایک آنکھ تیزاب گردی کی نذر ہو گئی تھی اور اس دل دہلانے والے حادثے سے قبل وہ ایک مصورہ کے طور پر شہرت حاصل کرنا چاہتی تھیں.
معصومہ اتائی خاندانی رنجش کے باعث اپنے شوہر سے طلاق لینا چاہتی تھی جسے غیرت کا جواز بنا کر معصومہ کے سسر نے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیا تاکہ وہ اور کہیں شادی کے قابل نہ رہے اور ساری عمر سسک سسک کر گزار دے، معصومہ کے سسرال نے کسی قانونی چارہ جوئی کرنے پر معصومہ کے بچے کو بھی تیزاب سے جھلسانے کی دھمکی دی جس پر معصومہ نے اپنا کیس واپس لے لیا تھا.
واضح رہے کہ دنیا بھر میں تیزاب گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے جس کی بنیادی وجہ تیزاب کا بآسانی دستیاب ہونا اور اس کم قیمت ہتھیار سے مخالف کو ایسی کڑی سزا دی جاسکتی ہے جو شکار کو زندگی بھر سسکتے رہنے کے لیے کافی ہوتا ہے جب کہ قانون میں اس سفاک ظلم کی سزا کا درست تعین نہ ہونا بھی تیزاب گردی کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے.