امریکی نائب صدر اور صدارتی امیدوار کملا ہیرس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ گزشتہ ہفتے مقبوضہ مغربی کنارے میں ترک نژاد امریکی کارکن ایزگی ایگی کا اسرائیلی قتل ایک ایسا ہولناک سانحہ تھا جو کبھی نہیں ہونا چاہیے تھا۔
انہوں نے کہا کہ ایزگی مغربی کنارے میں پرامن طریقے سے احتجاج کر رہی تھی، بستیوں کی توسیع کے خلاف کھڑی تھی جب اس کی نوجوان زندگی کو بےحسی کے ساتھ مختصر کر دیا گیا، پرامن احتجاج میں حصہ لینے پر کسی کو قتل نہیں کیا جانا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی موت کا باعث بننے والی فائرنگ ناقابل قبول ہے اور مغربی کنارے میں [اسرائیلی فوج] کے اہلکاروں کے طرز عمل کے بارے میں جائز سوالات اٹھتے ہیں اسرائیل کو اس بات کو یقینی بنانے کے لیے مزید کچھ کرنا چاہیے کہ اس طرح کے واقعات دوبارہ کبھی نہ ہوں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل کی ابتدائی تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ "ایک المناک غلطی کا نتیجہ ہے جس کے لیے [اسرائیلی فوج] ذمہ دار ہے امریکا اسرائیلی حکومت پر جوابات کے لیے دباؤ ڈالتا رہے گا۔
اسرائیلی فوج نے ترک نژاد امریکی کارکن کو قتل کو غیر ارادی قرار دے دیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ مغربی کنارے میں قتل ہونے والے امریکی ترک کارکن کو فوج نے ‘غیر ارادی طور پر’ گولی ماری۔
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ امریکی ترک کارکن Aysenur Ezgi Eygi جو گزشتہ ہفتے مغربی کنارے میں ماری گئی تھی ممکنہ طور پر اسرائیلی فورسز نے "بالواسطہ اور غیر ارادی طور پر” گولی مار دی تھی جب کہ وہ کسی اور کو نشانہ بنا رہے تھے۔
سیئٹل سے تعلق رکھنے والی 26 سالہ کارکن جمعہ کو بیتہ قصبے میں اسرائیلی بستیوں کے خلاف مظاہرے کے دوران سر میں گولی لگنے سے ہلاک ہوئی تھیں۔
فوج نے کہا کہ ان کی انکوائری سے پتہ چلا ہے کہ "اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ وہ بالواسطہ اور غیر ارادی طور پر [اسرائیلی فوج] کی گولی کا نشانہ بنی تھی۔
دیگر مظاہرین کا کہنا تھا کہ اسرائیلی فورسز کی طرف سے آنسو گیس اور لائیو راؤنڈز فائر کرنے اور فلسطینیوں کے پتھراؤ کے درمیان جھڑپیں ہوئیں لیکن ایگی کو گولی مارنے سے پہلے ہی تشدد تھم گیا تھا۔
اقوام متحدہ نے جمعہ کے روز مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک احتجاجی مظاہرے کے دوران ایک امریکی ترک خاتون عائشہ نور ایزگی کے قتل کی ’مکمل تحقیقات‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
الجزیرہ کے مطابق 26 سالہ عائشہ نور ایزگی ایگی کو اسرائیلی فورسز نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کیا، جب وہ نابلس کے قریب بیتہ قصبے میں یہودی آباد کاری کی توسیع کے خلاف ہفتہ وار احتجاج میں حصہ لے رہی تھیں۔ اسرائیلی فوج نے کہا کہ وہ فائرنگ کے نتیجے میں ایک غیر ملکی شہری کی ہلاکت کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
نور ایزگی کے اہل خانہ نے ایک بیان میں کہا کہ وہ شدید صدمے اور غم سے دوچار ہو گئے ہیں، کیوں کہ محبت کرنے والی اور ’’شدید جذباتی انسانی حقوق کی کارکن‘‘ چلی گئیں، خاندان نے کہا کہ ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ وہ اسرائیلی فوجی شوٹر کی گولی سے ہلاک ہوئیں، اہل خانہ نے امریکا سے تحقیقات کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
اس دلدوز واقعے نے امریکا کو بھی شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، اس لیے اسرائیل سے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان شان سیویٹ نے کہا کہ واشنگٹن کو ایک امریکی شہری کی المناک موت پر پریشانی لاحق ہو گئی ہے، اسرائیل اس کی تحقیقات کرے۔
تاہم عائشہ نور ایزگی کے والدین نے کہا ہے کہ امریکا خود آزادانہ طور پر واقعے کی تحقیقات کرے اور ذمہ داروں کا احتساب کیا جائے، کیوں کہ اسرائیلی تحقیقات ناقابل اعتبار ہیں۔