ہفتہ, جولائی 5, 2025
اشتہار

چارلٹن ہسٹن: تذکرہ کراچی آمد اور یادگار ملاقات کا

اشتہار

حیرت انگیز

چارلٹن ہسٹن نے حضرت موسیٰ پر بننے والی فلم کے مرکزی کردار کے ساتھ بِن حُر جیسا پُرشکوہ اور عالمی شہرت یافتہ مصور اور مجسمہ ساز مائیکل اینجلو کا کردار نبھا کر لازوال شہرت پائی۔ وہ پاکستان بھی آئے تھے۔

امریکی اداکار چارلٹن ہسٹن 4 اکتوبر 1923ء کو پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کی اور تین برس تک امریکی فضائیہ سے وابستہ رہے۔ ہسٹن کو شروع ہی سے اداکاری کا شوق تھا۔ انھوں نے پرفارمنگ آرٹ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی اور فوج سے مستعفی ہوکر فلموں میں قسمت آزمائی۔ لیکن فلم میں کام حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ چارلٹن ہسٹن نے بڑی تگ و دو اور محنت کی اور بالآخر کام یابی نے ان کے قدم چومے۔

ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ہسٹن اپنی اہلیہ لِڈیا کے ساتھ شکاگو میں فقط ایک کمرے میں‌ رہنے پر مجبور تھے۔ وہ مقامی آرٹسٹوں کی طرح معمولی معاوضہ پر لائیو ماڈلنگ کرتے رہے۔ قسمت نے یاوری کی تو فلم کے بہترین اداکاروں‌ میں‌ شمار ہوا اور آسکر سمیت متعدد فلمی اعزازات سے نوازے گئے۔ 5 اپریل 2008ء کو آسکر ایوارڈ یافتہ اداکار چارلٹن ہسٹن بیورلی ہلز میں اپنے گھر پر انتقال کر گئے تھے۔ وہ 84 سال کے تھے۔

چارلٹن ہسٹن کے بارے میں ناقدین کی رائے تھی کہ وہ دیو مالائی کرداروں میں افسانوی قد و کاٹھ جیسی جان ڈال دینا جانتے تھے۔ دوسری طرف خود ان کی ذاتی زندگی بھی کسی فلم اسکرپٹ سے کم نہیں تھی۔ وہ امریکی ریاست مشی گن کے نواح سے نکلے اور فلمی دنیا کا ایک مقبول چہرہ بنے۔ یہی نہیں بلکہ انھیں شہری حقوق کا ایک علم بردار بھی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ہِسٹن اپنے بارے میں کہتے تھے کہ وہ بچپن میں شرمیلے، پستہ قد، دبلے اور پُھنسیوں کا شکار رہے۔ لیکن مستقبل کے سہانے سپنے ضرور دیکھتے رہے۔ فضائیہ کی نوکری چھوڑنے کے بعد کڑا وقت گزارا اور فلموں میں کام حاصل کرنے کے لیے بہت بھاگ دوڑ کرنا پڑی۔

1952ء میں چارلٹن ہسٹن نے براڈوے میں کام کرنے کے بعد فلم ’دی گریٹیسٹ شو آن ارتھ‘ میں رنگ ماسٹر کا رول نبھایا اور اس کے چار برس بعد مشہورِ‌ زمانہ فلم ’دی ٹین کمانڈمینٹس‘ میں انھوں نے حضرت موسیٰ کا کردار ادا کیا جس نے انھیں لازوال شہرت دی۔ ناقدین کے نزدیک وہ چھ فٹ چار انچ کے قد کے ساتھ ایسے نقوش کے حامل مرد تھے جو کسی سنگ تراش کا شاہکار معلوم ہوتا تھا جب کہ ان کی گونج دار آواز بھی فلم بینوں کو متاثر کرتی تھی۔ ساٹھ کی دہائی کی سائنس فکشن پر مبنی فلم ’پلینٹ آف دی ایپس‘ نے چارلٹن ہسٹن کو پھر کام یابی کے افق پر پرواز کرنے موقع دیا اور پھر ستّر کی دہائی میں ’ارتھ کوئیک‘ اور ’اسکائی جیک جیسی فلموں کے لیے انھیں نہایت موزوں سمجھا جانے لگا۔

فلم کے ساتھ ہسٹن نے اپنے دور میں اسٹیج پر شیکسپیئر کے ڈراموں میں بھی کردار نبھائے اور میکبیتھ اور انٹونی کو یادگار بنا دیا۔ اپنے کیریئر کے آخری دنوں میں ان کی زیادہ توجہ اسٹیج پر رہی۔

یہ بات ہے 1980ء اور 82 کی۔ چارلٹن ہسٹن نے اپنی آمد کے اگلے روز امریکن قونصلیٹ کی لائبریری میں ایک پریس کانفرنس کے بعد صحافیوں سے ملاقات بھی کی تھی۔ کراچی کے سینئر صحافی اور کالم نگار نادر شاہ عادل جو سنیما کے دلدادہ اور اچھی فلمیں‌ دیکھنے کا شوق رکھتے تھے، اس اداکار کے مداحوں‌ میں سے ایک رہے ہیں۔ نادر شاہ اداکار سے خط کتابت بھی کرتے رہے تھے جس پر اداکار نے ان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ دراصل اُن دنوں‌ نادر شاہ ایک روزنامے سے وابستہ تھے اور چارلٹن ہسٹن سے اس فلم سے متعلق گفتگو کے لیے ان کو ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ نادر شاہ عادل لکھتے ہیں، ڈائریکٹر پبلک افیئرز شیلا آسٹرین نے میری چارلٹن ہسٹن سے ملاقات کرائی۔ میں نے انھیں 8 سالوں پر محیط وہ ساری تصاویر اور ان کے خطوط دکھائے جو انھوں نے مجھے بھیجے تھے، چارلٹن بہت خوش ہوئے، گفتگو مختصر مگر بہت یادگار رہی۔ شیلا سے کہنے لگے اس صحافی نے مجھ پر کئی مضامین لکھے، مجھے ایک ایمبرائیڈرڈ ٹوپی بھیجی تھی، میں ان کا ممنون ہوں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں