1961ء میں اداکار درپن نے اپنی ذاتی فلم ’’گلفام‘‘ بنائی تھی گلفام کا ٹائٹل رول درپن نے کیا تھا جب کہ ان کے مدمقابل مسرّت نذیر ہیروئن کے روپ میں اسکرین جلوہ گر ہوئی تھیں۔ یہ درپن کی ایک کام یاب فلم تھی جس میں انھوں نے عرب معاشرت اور ثقافت کو اجاگر کیا تھا۔ درپن ایک مقبول فلمی ہیرو تھے جنھوں نے کیریکٹر رول بھی نبھائے اور معاون اداکار کے طور پر بھی کام کیا۔
آج پاکستانی فلمی صنعت کے اس خوب رُو اداکار کی برسی ہے۔ درپن نے 1980ء میں س جہانِ فانی کو خیرباد کہا تھا۔ ان کا تعلق متحدہ صوبہ جات آگرہ اور اودھ سے تھا۔ درپن 1928ء میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سیّد عشرت عباس تھا۔ ان کے بھائی سنتوش کمار بھی فلمی ہیرو تھے جب کہ ایک بھائی ایس سلیمان فلم سازی سے وابستہ تھے۔ عشرت عبّاس نے فلم کی دنیا میں درپن کے نام سے شہرت پائی۔ ان کے فلمی کریئر کا آغاز تقسیم ہند کے بعد 1950ء میں فلم امانت سے ہوا۔ اس دور میں پاکستان اور بھارت کے درمیان فلمی تعلق خاصا مضبوط تھا اور ان کی بنائی ہوئی فلموں کی نمائش بھی دونوں ممالک میں عام تھی۔ درپن نے پاکستان میں چند فلموں میں کام کرنے کے بعد ممبئی کا رخ کیا اور وہاں فلم عدلِ جہانگیری اور باراتی میں کام کیا، ممبئی میں قیام کے دوران بھارتی اداکارہ نگار سلطانہ کے ساتھ ان کا افیئر بھی مشہور ہوا۔ درپن پاکستان لوٹ آئے اور یہاں کئی کام یاب فلمیں کیں جن میں ساتھی، رات کے راہی، سہیلی، گلفام، قیدی، آنچل، باجی، شکوہ، اک تیرا سہارا اور نائلہ وغیرہ شامل ہیں۔
درپن کی بطور ہیرو آخری اور کام یاب فلم پائل کی جھنکار تھی جو 1966ء میں بڑے پردے پر نمائش کے لیے پیش کی گئی۔ اداکار درپن نے مجموعی طور پر 67 فلموں میں کام کیا جن میں 57 فلمیں اردو، 8 فلمیں پنجابی اور دو فلمیں پشتو زبان میں بنائی گئی تھیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول ہیروئن نیّر سلطانہ تھیں جن سے درپن کی شادی ہوئی اور ان کا یہ تعلق زندگی کی آخری سانس تک قائم رہا۔
درپن کو بہترین اداکاری پر دو مرتبہ نگار ایوارڈ دیا گیا۔ فلم ساز کے طور پر گلفام کے علاوہ درپن نے بالم، تانگے والا، ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سے بھی فلمیں بنائیں۔ درپن لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔