یہ تذکرہ ہے راج کپور کا، جنھیں بولی وڈ کے مشہور اور مقبول ترین ہیرو کے علاوہ بطور فلم ساز اور ہدایت کار بھی پہچانا جاتا ہے۔ پشاور کے راج کپور کو ممبئی میں بلاشبہ وہ شہرت اور مقبولیت نصیب ہوئی جو بہت کم فن کاروں کا مقدر بنی ہے۔
آج راج کپور کا یومِ وفات ہے۔ اس دن کی مناسبت سے ہم مصنّف راج نارائن کی یادداشتوں سے یہ واقعہ نقل کررہے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’بامبے ٹاکیز‘ نے بیسویں صدی کے 30 ویں عشرے میں ہندوستان کے فلم سازوں اور شائقین کو اپنی جانب متوجہ کیا اور اس بینر تلے بننے والی فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔ اسی فلم اسٹوڈیو سے دلیپ کمار، مدھوبالا، راج کپور، دیوآنند جیسے فن کاروں کی شہرت کا سفر بھی شروع ہوا۔
ہندوستانی سنیما کے مشہور اداکار راج کپور نے اسی اسٹوڈیو میں ڈانٹ سنی اور انھیں ایک روز تھپڑ بھی پڑا۔ فلم ’جوار بھاٹا‘ کی شوٹنگ کی جارہی تھی جس میں راج کپور کا بھی ایک کردار تھا۔ فلم کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کیدار شرما تھے۔ ایک سین کی عکس بندی کے لیے جب وہ شوٹنگ شروع کرنے کو کہتے تو راج کپور کیمرے کے سامنے آتے اور اپنے بال ٹھیک کرنے لگتے۔ ایسا دو تین بار ہوا اور جب بار بار راج کپور نے یہی حرکت کی تو کیدار شرما برداشت نہ کرسکے اور آگے بڑھ کر انھیں ایک تھپڑ لگا دیا۔
ڈائریکٹر کی جھڑکیاں اور وہ تھپڑ راج کپور کے کام آیا اور ہندی سنیما کے شائقین نے انھیں بے حد سراہا اور ان کے کام کو پسند کیا، بعد کے برسوں میں راج کپور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے باکمال فن کاروں کی صف میں کھڑے ہوئے اور ان کی فلمیں کام یاب ثابت ہوئیں۔
اداکار راج کپور 2 جون 1988ء میں چل بسے تھے۔ سنیما بینوں کے دلوں پر راج کرنے والے راج کپور کا پورا نام رنبیر راج کپور تھا۔ انھوں نے 14 دسمبر 1924ء کو پشاور میں آنکھ کھولی تھی۔ ان کے والد بھی ایک زبردست اداکار اور فلم ساز تھے۔ انھیں فلمی صنعت پرتھوی راج کپور کے نام سے جانتی ہے۔ 1935ء میں راج کپور نے بطور چائلڈ ایکٹر فلم نگری میں کام کیا۔ وہ خوب رُو اور خوش قامت تھے۔ بعد میں ہیرو کے روپ میں انھیں فلم بینوں نے بہت پسند کیا۔ راج کپور نے ہدایت کار کی حیثیت سے اپنی فلم ’آوارہ‘ سے حقیقی معنوں میں شہرت پائی۔ اس کے بعد برسات، چوری چوری اور جاگتے رہو جیسی متعدد فلمیں سپر ہٹ ثابت ہوئیں۔
لیجنڈری اداکار راج کپور کو ہندوستان میں دو نیشنل فلم ایوارڈ اور 9 فلم فیئر ایوارڈ دیے گئے جب کہ 1988ء میں انھیں فلم سازی پر اعلیٰ ترین اعزاز دادا صاحب پھالکے دیا گیا۔ راج کپور نے اپنی فلموں میں شائقینِ سنیما کی تفریح کو ضرور مدّنظر رکھا، لیکن ان کی کوشش ہوتی تھی کہ کسی سماجی مسئلے جیسے ناانصافی اور طبقاتی اونچ نیچ کی نشان دہی بھی کریں۔ اسی وجہ سے وہ مساوات کے پرچارک فلم ساز کی حیثیت سے بھی مشہور تھے۔ بطور ہدایت کار ان کی آخری فلم ’’حنا‘‘ تھی جو ان کی وفات کے بعد ریلیز کی گئی اور یہ فلم بھی کام یاب رہی۔
پاکستانی فلم انڈسٹری کے نام ور اداکار، فلم ساز اور ہدایت کار سیّد کمال بھارتی اداکار راج کپور سے گہری مشابہت رکھتے تھے۔ ان کی راج کپور سے دوستی بھی ہوگئی تھی اور ایک مرتبہ جب راج کپور بھارتی شہر کے مقامی ہوٹل میں شوٹنگ کی غرض سے ٹھیرے ہوئے تھے، تو ان کے مداح ہوٹل کے باہر جمع ہوگئے۔ ان کا اصرار تھا کہ راج کپور انھیں اپنا دیدار کروائیں۔ اُس روز راج کپور کی طبیعت کچھ ناساز تھی۔ وہ بستر سے اٹھنے کو تیّار نہیں تھے۔ اتفاق دیکھیے کہ پاکستانی اداکار سیّد کمال ہوٹل میں اس روز ان کے ساتھ موجود تھے۔ ہجوم کے اصرار پر راج کپور نے اداکار کمال کو کہا کہ وہ بالکونی میں جائیں اور ہاتھ ہلا کر لوگوں سے محبّت کا اظہار اور ان کا شکریہ ادا کریں۔ یوں اداکار کمال نے راج کپور بن کر ان کے مداحوں کو خوش کیا اور کوئی نہیں جان سکا کہ بالکونی میں راج کپور نہیں بلکہ پاکستان سے آئے ہوئے اداکار کمال کھڑے ہیں۔