اشتہار

فلمی دنیا کے وہ نام جو اپنی شہرت برقرار نہ رکھ سکے

اشتہار

حیرت انگیز

تقسیمِ ہند کے بعد چند سال تک پاکستان اور بھارت کی فلم انڈسٹریوں میں فن کاروں‌ کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ فلموں کی نمائش کا منافع بخش کاروبار بھی ہوتا رہا، لیکن پھر حالات بدل گئے اور سنیما پر نمائش کا یہ سلسلہ بند ہوگیا۔ مگر چند دہائیوں پہلے تک پاکستان میں انڈین فلموں کے کیسٹ خوب فروخت ہوتے تھے۔ اس دور کے شائقین کو بولی وڈ کے وہ نام شاید یاد ہوں جنھوں نے اپنی پہلی ہی فلم سے شہرت اور مقبولیت کے گویا ہفت آسمان طے کرلیے۔ مگر پھر وہ بڑے پردے پر دوبارہ نہیں دکھائی دیے۔

فلمی دنیا میں‌ جن فن کاروں‌ کی قسمت کا ستارہ چمکا اور معدوم ہوگیا، ان میں گورو کمار بھی شامل ہیں جو بولی وڈ کے مشہور اداکار راجندر کمار کے بیٹے ہیں۔

کمار گورو کی پہلی فلم ’لو اسٹوری‘ تھی۔ 1981ء کی یہ سپر ہٹ فلم تھی جس کے بعد اداکار نے اپنا سفر جاری رکھنے کی ٹھانی مگر قسمت کی دیوی اداکار پر مہربان نہیں ہوئی۔ پہلی فلم کے بعد کمار گورو کو بولی وڈ میں خاطر خواہ کام یابی نہ مل سکی۔ کمار گورو کا بولی وڈ میں سفر جلد ہی تمام ہوگیا۔ ’لو اسٹوری‘ کی بدولت گورو نوجوانوں میں بہت مقبول ہوئے تھے۔ اس زبردست پذیرائی کو دیکھ کر راجندر صاحب کے کہنے پر فلم سازوں نے گورو کو مزید فلموں میں مرکزی کردار سونپے، لیکن ان کی کوئی فلم قابلِ‌ ذکر ثابت نہیں ہوسکی۔

- Advertisement -

مہیش بھٹ کی فلم ’نام‘ میں کمار گورو نے ایک مرتبہ پھر خود کو آزمایا مگر نہیں چل سکے۔ 2002 میں فلم ’کانٹے‘ میں گورو کمار نے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی، مگر اس مرتبہ بھی ان کے مقدر کا ستارہ نہیں چمکا۔

بولی وڈ میں کپور خاندان کی اہمیت کسی سے چھپی نہیں ہے۔ پرتھوی راج کپور سے رنبیر کپور تک ہر نسل نے فلموں میں قسمت آزمائی کی اور شہرت بھی حاصل کی۔ لیکن اس خاندان کے چند نام ایسے ہیں جو اپنے بڑوں کی شہرت اور تعلقات کے ساتھ اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر بھی آگے نہ بڑھ سکے۔ ان میں سب سے بڑی مثال راج کپور کے بیٹے راجیو کپور کی ہے جن کی ’رام تیری گنگا میلی‘ جیسی سپر ہٹ فلم میں منداكنی کے ساتھ جوڑی بھی خوب مقبول ہوئی۔ مگر راجیو کو بڑے پردے پر 10 سے 12 فلمیں کرکے بھی کچھ نہ ملا۔

راجیو ان ناکامیوں کے بعد اسکرین سے غائب ہو گئے۔ راجیو کے علاوہ ششی کپور کے بیٹے کنال اور کرن کپور کا حال تو اس سے بھی برا ہوا اور وہ کوئی قابلِ ذکر فلم نہیں حاصل کرسکے۔

بھاگیہ شری کا نام فلم ’میں نے پیار کیا‘ کے بعد شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ اسے شاید دماغ بہت ہوگیا تھا یا دماغ نے درست فیصلہ کرنے کی سکت کھو دی تھی۔ شہرت کے بامِ عروج پر پہنچ کر اس اداکارہ نے شادی کا اعلان کیا اور یہ تک کہہ دیا کہ وہ جو بھی فلم کرے گی اپنے شوہر ہماليہ کے ساتھ ہی کرے گی۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کہا تھاکہ وہ کسی اور ہیرو کے ساتھ کام نہیں کرے گی۔ اور تب وہ بولی وڈ میں زیرو ہوگئی۔ بعد میں بھاگیہ شری کو بھوجپوری، مراٹھی اور جنوبی بھارتی فلموں کے علاوہ ٹی وی پر کام کرتے دیکھا گیا۔

راہول رائے اور انو اگروال کی فلم ’عاشقی‘ 1990 میں بنی تھی۔ اس فلم کے ہیرو ہیروئن کو جو شہرت ملی وہ بلاشبہ انھیں انڈسٹری کے چند خوش قسمت فن کاروں‌ میں سے ایک ثابت کرتی ہے۔ راہول اور انو اگروال اس زمانے میں نوجوانوں کے دلوں میں بستے تھے۔ بھارت میں اکثر نوجوان راہول کا ہیئر اسٹائل کی نقل کرتے تھے اور لڑکیوں کے بالوں میں وہی ربن نظر آتا تھا جو فلم کی ہیروئن یعنی انو کے بالوں میں انھوں نے دیکھا تھا۔ اس مقبولیت کے باوجود ان فن کاروں کو بڑے پردے پر مزید کام یابی نہیں ملی۔

فلم ’سوداگر‘ میں منیشا كوئرالا کے ساتھ وویک مشران نے بڑی داد سمیٹی تھی۔ یہ سبھاش گھئی کی فلم تھی لیکن شائقین اور ناقدین کے چاہنے اور سراہنے کے بعد اس اداکار کو گویا نظر لگ گئی۔ وویک نے ’رام جانے‘ اور ’فرسٹ لو لیٹر‘ جیسی فلمیں کیں مگر کام یابی نہ ملی۔ بعد میں وویک نے ٹی وی کا رخ کیا۔

50 کی دہائی میں ’جادو‘ وہ فلم تھی جسے بہت کام یابی ملی اور اداکارہ نلنی جيوت کے ساتھ ہیرو کے طور پر سوریش کو بھی بہت سراہا گیا۔ مگر اداکار اس کے بعد فلم نگری میں نظر نہیں آئے۔

سپر ہٹ فلم ’دوستی‘ کے اہم اداکار سشیل کمار اور سدھیر کمار کا بھی یہی حال رہا۔ ان کے علاوہ بھی ہندی سنیما کے کئی اور نام ایسے ہیں جنھیں اپنی پہلی کام یاب فلم کے بعد دوبارہ بڑے پردے پر نہیں دیکھا گیا۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں