تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

نرگس میں وہ چیز نہیں تھی جسے عام فلمی زبان میں گلیمر کہتے ہیں!

ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں‌ کہ نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے انھوں نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔ آج اسی نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے جن کا اصل نام فاطمہ رشید تھا۔

ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ وہ یکم جون 1929 کو کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ ان بن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کردیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ نرگس کو کینسر کا مرض لاحق ہو گیا تھا اور پھر 1981ء میں آج ہی کے دن وہ اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلی گئیں۔

علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

نرگس کی آخری اور شہکار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

Comments

- Advertisement -