جمعہ, نومبر 8, 2024
اشتہار

‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستانی فلم انڈسٹری میں راگنی ‘آہو چشم’ مشہور تھیں۔ روزناموں اور فلمی رسائل میں ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ بطور اداکارہ راگنی کا مجموعی کیریئر اتنا متاثر کن نہیں رہا، لیکن خوب صورتی، اور ان کے نشیلے نینوں نے شائقینِ سنیما کو اُن کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ راگنی 2007ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ آج اداکارہ کی برسی ہے۔

راگنی نے 1941ء میں مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں مرکزی کردار نبھایا تھا اور اسی فلم کے بعد وہ آہو چشم کے نام سے پکاری گئیں۔ ہدایت کار روپ۔ کے۔ شوری نے راگنی کو بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔ فلم دُلا بھٹی کی نمائش کے موقع پر سنیماؤں پر جو تشہیری بورڈ اور پوسٹر آویزاں تھے، ان پر راگنی کی تصویر نے سنیما بینوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔نشیلی آنکھوں والی اس خوب صورت ہیروئن کی فلم دُلا بھٹی کے متعدد نغمات فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہر خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو شائقین کی بڑی تعداد نے سنیماؤں‌ کا رخ کیا اور دُلا بھٹی کی شان دار کام یابی کے ساتھ راگنی بھی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔

پاکستانی فلموں کی اس اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو اسے فلم میں کام دینے کا ارادہ کیا اور ان کے والد سے اجازت مانگی۔ ان کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ نشیلی آنکھوں والی اس لڑکی کو فلم دُلا بھٹی میں ہیروئن کا کردار سونپ دیا گیا۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ فلم کے ہیرو لاہور کے ایک رنگین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں راگنی کے ساتھ فلمی پردے پر بہت پذیرائی ملی۔

- Advertisement -

دُلا بھٹی کے بعد متعدد بڑے فلم سازوں نے راگنی کو اپنی فلموں میں‌ کاسٹ کرنا چاہا، لیکن اداکارہ نے اپنے والد کی اجازت سے فلم ’ہمّت‘ سائن کی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی کام یاب رہی اور راگنی کو سنیما بینوں نے بہت سراہا۔ اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا ایک گیت انتہائی مقبول ہوا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ میں‌ کام کیا اور پھر انھیں بمبئی سے فلم آفر ہوئی۔ لیکن اداکارہ نے انکار کردیا۔ وہ لاہور نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔ لاہور کی فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

تقسیم سے قبل ایک اور فلم 1946ء میں فرض کے نام سے بنائی گئی جس میں راگنی کے مدمقابل ایک نئے ہیرو کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت ملی اور وہ پاکستانی فلمی دنیا کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد راگنی نے بمبئی سے بھاری معاوضے پر فلم کی آفر قبول کرلی۔ یہ فلم شاہ جہان تھی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کار دار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں فلم شاہ جہان کو زبردست کام یابی نصیب ہوئی اور ہر طرف راگنی کا ڈنکا بجنے لگا۔ اداکارہ نے فلم کا معاوضہ اُس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی۔ مشہور ہے کہ ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے فلمی مرکز میں اداکارہ کی پہلی فلم ہی آخری ثابت ہوئی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اس کردار میں شائقین کے دل جیتے۔

اداکارہ راگنی صاف گو مشہور تھیں۔ ان کے کھرے اور دو ٹوک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بد دل بھی کیا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ راگنی نے دو شادیاں‌ کیں۔ لیکن وقت بدلا تو یہ خوب صورت اور آہو چشم اداکارہ تنہائی کا شکار ہوگئی اور آخری ایّام میں‌ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھائی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

راگنی نے لاہور کے ایک اسپتال میں دَم توڑا۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزارے۔ وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں‌ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے ان سے الگ ایک مکان میں منتقل ہوگئی تھیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں