تازہ ترین

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

جو بویا تھا وہ ہی کاٹ رہے ہیں

تحریر: عدنان انور

قارئین گرامی کچھ دن قبل اک ٹی وی چینل کے ٹاک شو میں ہونے والی گفتگو دیکھ وسن رہا تھا جسمیں حکومتی و اپوزیش جماعتوں کے ارکان مدعو تھے اور اک نہایت ہی فکر انگیزسیاسی بحث جاری تھی دونوں اطراف سے اپنی جماعتوں کے حق و دفاع میں کہ اچانک ہی گفتگو کارخ مڑا اور سلسلہ کلام بات چیت سے انتہائی نازیبا انداز میں تبدیل ہوگیا مہمان گرامی نے انتہائی گھٹیا الفاظ میں اپنے مخالف پر بڑی شدومد کیساتھ گولہ باری کردی ۔

جسے دیکھ کر میں توکیا شاید اسکرین دیکھنے والے جتنے بھی لوگ ہیں یقیننا وہ بھی ششسدررہ گئے ہوں کیونکہ موصوف ہمارے ملک کی اک اہم حکومتی عہدہ رکھنے والے عہیدار کے معاون خصوصی برائے سیاسی ابلاغ ہیں مگر سیاسی کیا اخلاقی بلوغت بھی ان سے کافی دور دکھائی دی- انکی گفتگواتنی پر اثر تھی کہ شاید ان سطور کے لکھے جانے تک کورٹ نے بھی نوٹس لے لیا ہوگا یہ لے لیا ہے –

اب آتے ہیں اصل سلسلہ کلام کیطرف جسکی باعث اتنی لمبی تمہید باندھنا پڑی کیونکہ اس کے بغیر یہ قضیہ سمجھ نہیں آتا –

ہمارے معاشرے میں ویسے بھی برداشت کا مادہ بہت کم ہے اور ماضی میں ہونے والے ٹاک شوز ختم ہونے کے بعد خاص طور پر کراچی شہر میں تو لاشوں کے انبار لگ جاتے تھے نامعلوم افراد کیجانب سے پورے شہر کا بہت ہی براحال ہوتا تھا ہر طرف افراتفری کا عالم ہوجاتا ، لوگ اندھی گولیوں سے بچنے کے لئیے کسی بھی عارضی ٹھکانے کو غنیمت جان کر سر کو چھپالیتے کہ شاید اسی طرح عصبیت پر مبنی سیاسی ٹاک شو کے نزلہ کا شکار ہونےسے بچ جائے ، اچھی طرح یاد ہے کہ گھر والے بھی یہی کہتے تھے بیٹا جہاں ہوں وہی رک جاؤ ابھی آنے کی ضرورت نہیں ہے اپنا خیال رکھنا صبح آجانا اور ہاں موبائل فون کھلا رکھنا

۔راقم بھی بچشم خود یہ حالات بڑی قریب سے دیکھ وگزرچکا ہیں –ہاں بھی دیکھتے تھے اور نکل جاتے تھے کہ کہیں دیکھنے کی ہی سزا نہ مل جائے ویسے بھی شہری سیاسی جماعتوں کے ناکردہ گناہوں کی سزا آتشی اسلحہ سے موت کیصورت میں بھگت رہے ہوتے تھے قصہ باالخیر یہ دور بھی تمام ہوگیا جن سیاسی جماعتوں کے یہ کام تھی آخر کار انکا بھی انجام ہوگیا۔

مگر یہ پڑھے لکھوں سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کا کیا کریں جو اپنی پارٹی کی ترجمانی اسکرین کے زریعے جن کودیکھنے والوں کی بھی تعدار لاکھوں میں ہی ہوگی وہ عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں کہ ہاں ہم اتنے ہی بدتہزیب اور بد گو ہے کہ اپنی جماعت کے دفاع میں کسی بھی حد سے گزرنے کو تیار ہیں۔

ٹاک شوز میں اپنی پارٹی کی ترجماںی کے لِیَے پارٹی قیادت ہی ایسے لوگوں کو منتخب کرتی ہیں جونرم گفتار ، تحمل مزاج اور خوش اخلاق ہوتے ہیں اور سامنے والے کا موقف کو عقل کی کسوٹی پر پرکھ کرجواب دیتے ہیں۔

کیونکہ انکا رویہ ہی پارٹی پالیسی کی ترجمانی کرتاہیں اور پھر اسی بیانیے کو عوام میں بھی پزیرائی ملتی ہیں –اور ہمارے دین میں بھی اِخلاقیات پر زور دیا گیا ہیں ،امت کے بہتریں اوصاف میں اک وصف اخلاق کی بھی ہے جسکا اخلاق بہتر ہوگا وہ ہی بہترین انسان ہوگا-

Comments

- Advertisement -