تہذیب و شرافت اور حسنِ اخلاق کے ساتھ چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا اور ان کی راہ نمائی کرنا آفاق صدیقی صاحب کے نمایاں شخصی اوصاف میں شامل تھا۔ یہ تذکرہ ہے پاکستان میں علم و ادب اور تدریس کے شعبہ میں معروف پروفیسر آفاق صدیقی کا۔
پروفیسر آفاق صدیقی کے علمی اور ادبی کام کی بات کی جائے تو بطور محقّق، مترجم اور بحیثیت شاعر انھوں نے کئی تصانیف یادگار چھوڑی ہیں۔ آج آفاق صدیقی کی برسی ہے۔ وہ 17 جون 2012ء کو وفات پاگئے تھے۔
4 مئی 1928ء کو ہندوستان کی ریاست اتر پردیش کے شہر فرخ آباد میں پیدا ہونے والے آفاق صدیقی نے علی گڑھ سے گریجویشن کیا۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور صوبۂ سندھ کے مشہور اور تاریخی حیثیت کے حامل شہر سکھر میں سکونت اختیار کرلی۔ اردو کے علاوہ آفاق صدیقی فارسی اور ہندی کے ساتھ سندھی زبان بھی جانتے تھے۔ مضمون نگاری اور شاعری کرتے ہوئے انھوں نے اپنی اس قابلیت اور علمی استعداد کے ساتھ تحقیق اور تراجم کا سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ ان کے تحقیقی مضامین اور تراجم پر مبنی تصانیف کو اردو اور سندھی ادب میں معتبر مانا جاتا ہے۔
آفاق صدیقی کا پیشہ و مصروفیت کا شعبہ تدریس رہا۔ وہ مختلف حیثیتوں میں تعلیمی اداروں سے منسلک رہے اور ساتھ ہی اپنے علمی و ادبی مشاغل بھی انجام دیتے رہے۔ پروفیسر آفاق صدیقی نے سندھ کے مشہور صوفی شاعر شاہ عبداللطيف بھٹائی اور سچل سرمست کے علاوہ شيخ اياز کی شاعری کا اردو ترجمہ بھی کیا۔
پروفیسر آفاق صدیقی نے مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی تھی جس نے سکھر اور شہر کے نواح میں ایسے اسکول قائم کیے جہاں کم اور اوسط آمدنی والے خاندانوں کے بچوں کو داخلہ دیا جاتا تھا۔ شعبۂ تعلیم سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے اور اس شہر میں اردو سندھی ادبی فاؤنڈیشن کی بنیاد رکھی۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ایسے ادیبوں کی کتابوں کی اشاعت ممکن بنانا تھا جو اس کی مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ 1952ء میں آفاق صدیقی نے ایک رسالہ ’کوہ کن‘ کا اجرا کیا اور اس کے اگلے برس سندھی ادبی سرکل کا قیام عمل میں لائے۔ ان کی تصنیف و تالیف کردہ کتب کی تعداد 40 ہے جن میں ان کے مجموعہ ہائے کلام کے علاوہ ’تاثرات‘ (تنقیدی مضامین)، ’شاعرِ حق نوا‘(سچل سرمست پر تحقیقی کتاب)، ’جدید سندھی ادب‘(تراجم نظم و نثر)، ’سندھی ادب کے اردو تراجم‘ (تحقیق)، ’عکسِ لطیف‘(شاہ لطیف کی شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب) شامل ہیں۔ سندھی کہانیوں پر مشتمل کتاب ماروی کے دیس اور شاہ جو رسالو کا اردو ترجمہ بھی انہی کے قلم سے نکلا تھا جو بہت مقبول ہوا۔
اردو اور سندھی ادب کے حوالے سے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انھیں تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔