تازہ ترین

موسمِ سرما اورافغانستان میں امیدِ بہار

ماضی کی طرح اس سال بھی افغانستان میں قیام امن کے لیے مذاکرات کا دورشروع ہوچکا ہے، فی الحال یہ عمل طالبان کی جانب سے معطلی کا شکار ہے لیکن امید کی جارہی ہے کہ مذاکرات جلد بحال ہوں گے۔ افغانستان کے جغرافیائی محل و وقوع کے سبب یہاں موسمِ سرما میں انتہائی محدود سرگرمیاں ہوتی ہیں، اسی لیے جنگ بھی تعطل کا شکار ہے ۔

علاقائی سیاست اور دہشت گردی کے خلا ف اس جنگ پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اچھی طبرح جانتے ہیں کہ طالبان موسمِ سرما میں ہمیشہ سے مذاکرات پر آمادگی ظاہر کرتے چلے آئے ہیں اور موسمِ بہار کی آمد کے ساتھ ہی وہ جنگ چھیڑدینے کا اعلان کرتے ہیں۔ امریکی حکومت، افغان حکومت اور طالبان قیادت ، تینوں فریقین کی جانب سے مسئلے کی اصل جڑ کو نظرانداز کرنے کے سبب یہ جنگ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ کا رخ اختیا ر کرچکی ہے اور امریکا، جو ویت نام کی دلدلوں سے بحفاظت باہر نکل آیا تھا ، آج تک یہاں سے نکلنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔

ماضی سے حال تک


اب ذرا نظر ڈالتے ہیں ماضی کے ان حالات پر جن سے گزر کر افغانستان اور امریکا اس نہج پر پہنچے ہیں کہ نہ جائے رفتن ، نہ پائے ماندن والی صورتحال پید ا ہوچکی ہے۔ نہ تو امریکا ، افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرسکا ہے، نہ ہی اس کی مدد سے تشکیل پانے والی افغان حکومت ملک پر اپنا کنٹرول قائم کرسکی ہے ، دوسری جانب طالبان جو آج بھی افغانستان کے ایک بڑے خطے پر قابض ہیں ، تاحال رائے عامہ کو اکثریتی طور پر اپنے حق میں ہموار نہیں کرپائے ہیں جس کے سبب انہیں بھی ملک کا بلا شرکت غیرے مالک تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

افغانستان کی حالیہ جنگ کا منظر نامہ نائن الیون کے بعد ترتیب پانا شروع ہوتا ہے لیکن اس کی جڑیں ماضی میں ہیں ، جب سویت یونین شکست کے بعد اپنا جنگی سازو سامان افغانستان کی سنگلاخ پہاڑیوں پر پھینک کر بھاگ کھڑا ہوا، اور اس کی شکست کے پیچھے واضح طور پر امریکا اور پاکستان کا اشتراک تھا، روس کی گرم پانیوں تک رسائی کی دیرینہ خواہش کے سبب پاکستان پرلازم تھا کہ وہ اس سیلِ رواں کے سامنے افغانستان میں ہی بند باندھ دے جو کہ افغانستان کے رستے ہماری جانب بڑھ رہا تھا۔روس کے انخلاء کے فوراً بعد ہی امریکا بھی اس خطے سے ہاتھ جھاڑ کرچل پڑا جس کے نتائج بعد میں پورے خطے نے بھگتے۔

نائن الیون کے بعد امریکا ایک نئے کردار کے ساتھ اس خطے میں واپس آیا، کل تک جو طالبان امریکا کے اتحادی تھے ، آج وہ ان کا مخالف تھا، ایجنڈا یہ تھا کہ طالبان سے ان کے اس مسکن کو چھین لیا جائے جہاں بیٹھ کر وہ بقول شخصے پوری دنیا کا من سبوتاژ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ افغانستان کے ساتھ انتہائی طویل سرحد اور صدیوں پر مشتمل رشتوں کے سبب امریکا کے پاس پاکستان کے سوا کوئی آپشن نہیں تھا کہ لہذا پاکستان کو بطور فرنٹ لائن اتحادی اس جنگ میں شامل کیا گیا۔

میدانِ جنگ پاکستان تک پھیل گیا


جنگ شروع ہوئی تو یہ پاکستان کے قبائلی علاقوں اور پھر اگلے مرحلے میں داخل ہوتے ہوئے یہاں کے گلیوں اور بازاروں میں در آئی ۔ اس موقع پر بھارت کا تذکرہ بے محل نہیں ہوگا کہ جس نے پاکستان سے اپنی روایتی مخالفت کے سبب اپنے پیسے کو استعمال کرتے ہوئے افغانستان میں سفارت خانوں کی شکل میں اپنا پورا نیٹ ورک ترتیب دیا اور بقول پاکستانی فوج کی ہائی کمان کے، پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے وہاں سے بیٹھ کر بھرپور وسائل استعمال کیے۔ بالاخرمنظرنامہ تبدیل ہوا، اور سوات میں صوفی محمد کے ساتھ معاہدے کی ناکامی کے بعد پاک فوج نے ایکشن کے ذریعے ایک ایک کرکے پاکستان میں موجود تحریکِ طالبان کے ٹھکانے ختم کرنا شروع کیے اورسرحد پرباڑھ لگانے کا کام بھی شروع کیا، جس کے اثرات بھی نظرآئے اور پاکستان جو کہ روز بم دھماکوں کا نشانہ بنتا تھا ، اب یہ واقعات پہلے کی نسبت انتہائی کم ہوچکے ہیں۔

اس ساری صورتحال سے افغانستان میں ایک ڈرامائی تبدیلی آئی اورامریکا جو ابتدا میں وہاں فتح یاب دکھائی دے رہا تھا ،بالاخر اسی دلدل میں پھنس گیا جس میں اس سے قبل سفید ریچھ یعنی روس پھنس چکا تھا۔

امریکی انخلاء


سابق امریکی صدر اوبامہ کے دور سے امریکا چاہ رہا ہے کہ کسی طرح اپنا ساز وسامان سمیٹ کر افغانستان سے نکل جائے کہ یہ جنگ اب نہ صرف اس کی معیشت پر اثر انداز ہوکر اپنے اثرات دکھا رہی ہے بلکہ اس کے فوجی بھی اس بے مقصد کی جنگ سے عاجز آچکے ہیں، لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان سے جائے تو جائے کیسے کہ امریکا تو کمبل کو چھوڑ رہا ہے لیکن کمبل امریکا کو نہیں چھوڑ رہا۔ امریکا جانتا ہے کہ اگر وہ ایک دم سے اس خطے سے نکل جاتا ہے تو اپنے سابقہ تجربے کی بنا پر پاکستان افغانستان کے امور پر حاوی ہوجائے گا کہ جو کہ امریکا کے لیے کسی بھی طور قابلِ قبول نہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان جو کہ خود بھی انتہائی اہم محل و وقوع کا حامل ہے ، افغانستان جیسے علاقے میں بھی اپنا اثرورسوخ قائم کرلے۔ امریکا کی اس تشویش کو بڑھاوا دینے میں اس کے دیرینہ دوست بھارت کا بھی ہاتھ ہے جو اسے مسلسل ڈرا رہا ہے کہ امریکا کے انخلا کی صورت میں چین، پاکستان اور افغانستان کے راستے سنٹرل ایشین منڈیوں تک آسان رسائی حاصل کرلے گا اورایک بار امریکا یہاں سے گیا تو پھر دوبارہ اس خطے میں اپنا اثر ورسوخ استعمال نہیں کرسکے گا۔

پاکستان کا کردار


پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا سی پیک معاہدہ بھی امریکا کی پریشانی کی ایک اہم وجہ ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اپنے دور کی شروعات میں پاکستان کو نظر انداز کرکے بھارت کے ذریعے افغانستان میں امن عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کی تھی جس میں اسے ایک جانب تو بری طرح ناکامی ہوئی، دوسری جانب پاکستان جو کہ اس کا فرنٹ لائن اتحادی تھا ، اس نے بھی امریکا سے اپنا رویہ یکسر تبدیل کرکے علاقائی سطح پرچین اور روس کے تعاون سے افغانستان میں قیام ِ امن کے عمل کو تیز کرنے کی کوشش شروع کردی۔

اس ساری صورتحال نے امریکا کو مجبور کردیا کہ وہ ایک بار پھر پاکستان سے رجوع کرے اور یوں امریکی صدر اپنے 33 بلین ڈالرز، جن کا وہ پاکستان سے حساب مانگا کرتے تھے، بھول کر نئی پاکستانی حکومت سے رابطہ کرنے پر مجبور ہوئے کہ افغان امن عمل میں پاکستان ایک بار پھر موثر طور پر اپنا کردار ادا کرے۔

دیکھا جائے تو پاکستان اس وقت عالمی بساط پر اپنے مہرے بہت احتیاط سے چل رہا ہے ، سی پیک کی صورت میں پاکستان اور چین ایک دوسرے کے انتہائی قریب آچکے ہیں ، جس کے سبب پاکستان کا امریکا پر انحصار کم ہورہا ہے، دوسری جانب پاکستان روس سے بھی اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے، گزشتہ کچھ عرصے میں ہونے والےسفارتی اوردفاعی روابط اس بات کے گواہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ پاکستان نے مشرقِ وسطیٰ کے ساتھ بھی اپنے تعلقات کی از سرِ نو تشکیل کی ہے اور یمن کے معاملے میں غیر جانب دار رہ کر اپنا نیا کردار دنیا کے سامنے منوایا ہے۔

طالبان امریکا مذاکرات


پاکستان کی کوششوں سے امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان امور زلمے خلیل زا د نے دسمبر میں پاکستان کی اعلیٰ قیادت اور افغانستان میں افغان طالبا ن کی قیادت سے ملاقاتیں کیں جس کے بعد طالبان اور امریکا کے قطر میں مذکرات کی میز پر بیٹھنے کے آثار پیدا ہوئے، لیکن اس کے بعد صورتحال نے ایک نیا رخ اختیار کیا اور طالبان نے امریکا پر الزام عائد کیا کہ وہ مذاکرات کے ا یجنڈے سے پیچھے سے ہٹ رہا ہے ، یہ کہہ کر افغانستان کی جانب سے مذاکرات معطل کردیے گئے۔ بتایا گیا ہے کہ دونوں فریقین نے مذاکرات باہمی رضا مندی سے کچھ وقت کے لیے ملتوی کیے ہیں اور کچھ اختلافی امورکو طے کرنے کے بعد مذاکرات کا نئے سرے سے آغاز کیا جائے گا۔ پاکستانی دفترِ خارجہ نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ مذاکرات کا باقاعدہ آغاز جلد ہوگا۔

مذاکرات کی معطلی کے بعد امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد ایک بار پھر افغانستان پہنچے ، جہاں انتہائی مصروف شیڈول گزارنے کے بعد انہوں نے پاکستان کا رخ کیا اوراب وہ سول اورعسکری اعلیٰ سطحی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں۔ انہوں نے امریکی حکومت کی جانب سے طالبان اورامریکا کے درمیان مصالحت کاری کے فرائض انجام دینے پرپاکستان کا شکریہ بھی ادا
کیا۔ امریکی وفدمیں افغان امریکی مشن کےسربراہ جنرل آسٹن،امریکی صدرکی نائب معاون لیزاکرٹس اورامریکی ناظم الاموربھی شامل ہیں۔ جی ایچ کیو میں پاکستانی آرمی چیف جنرل قمر باجوہ سے ہونے والی ملاقات میں زلمے خلیل زاد نے افغانستان کے حالیہ دورے میں ہونے والی پیش رفت سے آرمی چیف کو آگاہ کیا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر گفتگو کی۔

اس سارے معاملے میں پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھارت پر خصوصی نظر رکھے جس نے محض پاکستان میں انتشار پیدا کرنے کے لیے افغانستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے ، اور اگر افغان طالبان اور امریکا کسی معاہدے پر پہنچ جاتے ہیں تو نہ صرف افغانستان میں کی گئی بھارتی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی بلکہ پاکستان مستقبل میں اہم پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا جس سے بھارت کا خطے کا چودھری بننے کا خواب ادھورا رہ جائے گا۔

آثاردیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ اب کی بار طالبان اور امریکا کے مذاکرات کسی حتمی نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب رہیں گے لیکن ماضی بتاتا ہے کہ موسمِ سرما میں کی جانے والی ایسی کوششیں ماضی میں کبھی کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔ موسمِ سرما گزار کر افغان طالبان ہمیشہ ہی کابل کی افغان حکومت اور افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیوں پر حملے شروع کردیتے ہیں اور سرما میں مذاکرات کا مقصد تاحال ان کے لیے گرمیوں میں لڑی جانے والی جنگ کی یکسوئی سے تیاری کرنا ہے۔ پاکستان، افغانستان اور امریکی عوام پر امید ہیں کہ فریقین کے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوں اور خطے میں اب کی بار ’قیام امن کی ضرورت‘ اصل گیم چینجر ثابت ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امن کی بہار کی یہ خواہش کب پوری ہوتی ہے؟۔،

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں