گزشتہ 21 سال سے جاری افغان جنگ کے خاتمے کے بعد اب امریکا نے اپنی ناکامی کا مبینہ اعتراف کرتے ہوئے بالآخر واپسی کا فیصلہ کر ہی لیا، یہ جنگ امریکا کے گلے میں پھنسی ایسی ہڈی بن گئی تھی جسے وہ نہ نگل سکتا تھا اور نہ ہی اُگل سکتا تھا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستے افغانستان سے واپس بلالیے جائیں گے۔
افغانستان میں سب سے بڑا فوجی اڈہ بند کرنے کے ساتھ ہی گویا امریکا نے جنگِ افغانستان کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کردیا ہے جس کا فیصلہ گزشتہ سال طالبان کے ساتھ کیے گئے معاہدے میں کیا گیا تھا۔
کابل سے تقریباً 60 کلومیٹرز کے فاصلے پر موجود بگرام ایئر بیس سے امریکی افواج کی وطن واپسی افغانستان میں امریکی مداخلت کا خاتمہ ہے کیونکہ مسلح افواج اسی ایئر بیس سے ہی یہاں کی اپنی تمام تر کارروائیاں کرتی تھی۔
جنگ سے آغاز سے اختتام تک گزشتہ 21سال میں کون سے اہم واقعات پیش آئے؟ جن میں سے کچھ اہم واقعات پر ہم قارئین کو آگاہ کریں گے۔
11 ستمبر 2001ء – افغانستان میں امریکی آمد کا سبب دراصل نائن الیون کے حملے تھے کہ جن کی ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی، جس کے سربراہ اسامہ بن لادن اس وقت افغانستان میں طالبان کے سائے تلے موجود تھے۔
7 اکتوبر 2001ء – امریکی فوج نے طالبان اور القاعدہ پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔ بمباری مہم کی رہنمائی اور طالبان مخالف مقامی دھڑوں کو منظم کرنے کے لیے امریکا کی اسپیشل فورسز اور سی آئی اے ایجنٹ افغانستان میں داخل ہوئے۔
13 نومبر 2001ء – امریکا کے حمایت یافتہ شمالی اتحاد کی فوجیں کابل میں داخل ہو گئیں اور طالبان جنوب کی طرف پسپا ہو گئے۔ یعنی تقریباً ایک مہینے کی کار روائی نے طالبان رہنماؤں کو فرار پر مجبور کر دیا۔
2 مئی 2003ء – امریکی حکام نے افغانستان میں اہم جنگی آپریشنز کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ صدر جارج ڈبلیو بش کی زیر قیادت اب امریکا کی توجہ عراق پر حملے کے لیے تیاریوں پر تھی۔ جس کے لیے امریکی فوجیوں اور جنگی ساز و سامان بڑے پیمانے پر منتقل کیا گیا۔ یوں طالبان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملا، جس نے ملک کے جنوبی اور مشرقی علاقوں میں اپنے قدم مضبوط کر لیے۔
17 فروری 2009ء – صدر براک اوباما نے کمانڈر اِن چیف کی حیثیت سے اپنا پہلا فوجی فیصلہ کیا اور مزید 17 ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا حکم دیا تاکہ وہ بڑھتی ہوئی شورش کو روک سکیں۔ یہ دستے ان 38 ہزار امریکی اور 32 ہزار نیٹو فوجیوں کے ساتھ مل گئے، جو پہلے سے ہی افغانستان میں موجود تھے۔
یکم مئی 2011ء – امریکا نے پاکستان میں داخل ہو کر ایک کار روائی میں اسامہ بن لادن کو قتل کر دیا۔ یہ وہی وقت تھا جب افغانستان میں امریکی فوج کی تعداد تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھی، یعنی ایک لاکھ سے بھی زیادہ ۔ جبکہ افغانستان اور پاکستان میں طالبان اور دیگر دھڑوں کے خلاف سی آئی اے کے ڈرون حملے بھی بڑھ رہے تھے۔
دسمبر 2011ء – امریکی حکام نے کہا کہ امریکی سفارت کاروں نے گزشتہ 10 ماہ کے دوران جرمنی اور قطر میں افغان طالبان رہنماؤں کے ساتھ نصف درجن سے زیادہ ملاقاتیں کی ہیں۔
27 مئی 2014ء – صدر اوباما نے سال کے اختتام تک 9,800 فوجیوں کو چھوڑ کر باقی تمام امریکی دستوں کو افغانستان سے نکالنے اور 2016ء کے اختتام تک باقی ماندہ کے بھی انخلا کا منصوبہ بنایا۔
28 دسمبر 2014ء – زیادہ تر جنگی دستوں کے انخلا اور جنگ کی قیادت افغانستان کو منتقل کر کے امریکی جنگی مشن کی با ضابطہ تکمیل کر دی گئی۔ تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی بدستور افغانستان میں موجود تھے، جن کی توجہ افغان فوج کو تربیت دینے اور دہشت گردی کے خاتمے پر رہی۔
21 اگست 2017ء – صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کو کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنے کے لیے لا محدود امریکی فوج اتارنے کا اعلان کیا۔
4 ستمبر 2018ء – طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے افغانستان میں پیدا ہونے والے سفارت کار زلمی خلیل زاد کو امریکا کا نمائندہ خصوصی مقرر کیا گیا۔
29 فروری 2020ء – امریکا نے دوحہ میں طالبان کے ساتھ فوج کے انخلا کا معاہدہ کر لیا جس کے مطابق افغان حکومت اور طالبان آپس میں امن مذاکرات کریں گے۔
12 ستمبر 2020ء – افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کاروں نے کئی ماہ کی تاخیر کے بعد بالآخر دوحہ میں امن مذاکرات کا آغاز کر دیا۔
2 دسمبر 2020ء – افغان حکومت اور طالبان امن مذاکرات کے طریق کار پر اپنے ابتدائی معاہدے تک پہنچ گئے، یہ 19 سال کی جنگ کے بعد پہلا تحریری معاہدہ تھا۔
14 اپریل 2021ء – امریکی صدر جو بائیڈن اعلان کیا کہ امریکی افواج طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت مئی تک فوجی انخلا نہیں کر سکتیں، البتہ 11 ستمبر سے پہلے غیر مشروط انخلا مکمل ہو جائے گا۔
26 جون 2021ء – جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور مطالبہ کیا کہ افغان اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کریں جبکہ سکیورٹی حوالوں سے امداد جاری رکھنے کا عہد بھی کیا۔
2 جولائی 2021ء – امریکا نے کابل کے نواح میں واقع اپنا سب سے بڑا فوجی اڈہ بگرام خالی کر دیا، ایک ایسے وقت میں ملک کے طول و عرض میں پر تشدد کار روائیاں عروج پر نظر آ رہی ہیں۔