سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کمیونزم کے تارو پود بکھرے تو اس عمل سے صومالیہ بھی متاثر ہوا جو افریقہ کا ایک مسلمان ملک ہے۔
اس ملک کے حالات پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے پڑوسی افغانستان کی طرح صومالیہ کا معاشرہ بھی قبائلی طرز کا ہے جس میں باہمی کشمکش اور اختلافات بسا اوقات وہ شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ خانہ جنگی کی صورت پیدا ہو جاتی ہے۔ یہاں بھی اسلحہ عام ہے۔ قبائل میں بچے بچے ہتھیاروں سے واقف اور ان کو چلانا جانتے ہیں۔ اکثر ان کے مسلح گروپ آپس میں برسرِ پیکار رہتے ہیں۔ عورتوں کے حوالے سے سخت گیر اور روایتی سوچ کے حامل اس معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل عام بات ہے۔ یہ معاشرہ ہر قسم کے جبر اور استحصال کو عورت کی حد تک جائز اور اپنا حق تصور کرتا ہے۔ غربت اور بدحالی نے یہاں بھوک بانٹی تو افراتفری اور انتشار نے انھیں آپس میں ایسا الجھایا کہ آج تک قبائل اس سے باہر نہیں نکل سکے۔ لوٹ مار اور ہر قسم کی کرپشن یہاں عام ہے۔
صومالیہ غلامی کے دور میں تین حصوں میں تقسیم تھا۔ ایک پر برطانیہ کی عمل داری تھی، دوسرا حصہ فرانس اور تیسرے پر اٹلی کا راج تھا۔ صومالیہ کا اکثر علاقہ بنجر ہے، کچھ حصہ کاشت کے لائق ہے۔
صومالیہ نے بدترین دور دیکھا اور ایک عرصے تک خانہ جنگی نے اسے تباہ و برباد کیے رکھا۔ آسمانی آفات اور قحط سالی ایک الگ مسئلہ ہے جب کہ قبائل میں برتری اور ریاستی اقتدار کی کشمکش ملک کو مسلسل بربادی کی طرف دھکیلتی رہی۔ خانہ جنگی اور قحط و مفلسی نے لاکھوں صومالیوں کی زندگی ہڑپ کر لی۔
آج بھی صومالیہ میں خود کُش بم دھماکے، سرکاری عمارتوں کو نشانہ بنانے اور اہل کاروں سمیت عام شہریوں کے قتل اور لوٹ مار کی وارداتوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں جب کہ حال ہی میں سیلاب نے اس ملک کے باسیوں کو پھر آزمایا ہے۔ دنیا اس موقع پر ان کی مدد کے لیے آگے بڑھی ہے، مگر صومالیہ کو داخلی انتشار سے نجات دلا کر اپنے پیروں پر کھڑے ہونے میں بھی مدد دینا ہو گی۔ اس ملک کی خود مختاری اور استحکام ہی لاکھوں انسانوں کی زندگیاں بتدریج بہتر بنا سکتا ہے۔