ہم ایتھیوپیا میں دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔
سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ سال کے اس حصّے میں (یورپ میں یہ جاڑوں کا موسم ہے) پہاڑ، جو بادلوں تک اونچے ہیں، سرسبز ہیں اور دھوپ میں شان دار لگ رہے ہیں۔ سنّاٹا اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
اگر آپ رک کر سڑک کے کنارے بیٹھ جائیں تو آپ کو بہت فاصلے پر اونچی، یک آہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں پہاڑیوں میں گاتے ہوئے بچّوں کی ہیں، گلّہ بانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ماں باپ کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا بچّوں کے ہاتھ میں ہو۔
افریقا کی نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ بچے ہر طرف ہیں: فوجوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں، کھیتوں میں کام کرتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوئے۔ اور گھر پر بھی بچّے ہی ہیں جو خاندان کے لیے اہم ترین کام سرانجام دیتے ہیں، یعنی پانی بھر کر لاتے ہیں۔ صبح منہ اندھیرے، جب اکثر لوگ نیند میں ہوتے ہیں، کم عمر لڑکے تیز قدموں سے کنوؤں، تالابوں اور دریاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی ان کی اچھی حلیف ثابت ہوئی ہے۔ اس نے ان کو ایک کارآمد شے فراہم کی ہے: پلاسٹک کی بالٹی۔
پلاسٹک کی بالٹی نے افریقی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ گرم اُستوائی علاقوں میں پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے، پانی کی ہمیشہ شدید قلّت رہتی ہے۔ اس لیے پانی حاصل کرنے کی غرض سے بہت دور، اکثر درجنوں کلومیٹر کے فاصلے تک، جانا پڑتا ہے۔ پلاسٹک کی بالٹی کے ایجاد ہونے سے پہلے پانی مٹی یا پتھر کے بنے ہوے بھاری گھڑوں میں لے جایا جاتا تھا۔ پہیا اور ایسی سواریاں جن میں پہیے استعمال ہوتے ہیں __ افریقی کلچر کا مانوس پہلو نہیں تھا، ہر چیز، پانی سے بھرا گھڑا بھی، سر پر اٹھا کر لے جانا ہی واحد طریقہ تھا۔
گھر کے کام کی تقسیم کے مطابق پانی لانے کا کام عورتوں کے حصّے میں آتا تھا۔ بچّے اتنے بھاری گھڑے نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور غربت اس قدر شدید تھی کہ بہت کم خاندان ایک سے زیادہ گھڑے رکھنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔
پلاسٹک کی بالٹی کی آمد ایک معجزہ تھی۔ ایک تو یہ نسبتاً سستی تھی (اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں)، یعنی کوئی دو ڈالر کے برابر۔ پھر یہ چھوٹے بڑے ہر سائز میں دست یاب تھی۔ اور چند لیٹر کی بالٹی چھوٹے بچّے بھی اٹھا سکتے تھے۔
چناں چہ پانی لانا اب بچّوں کی ذمے داری ہے۔
دور کسی کنویں کی طرف اپنے سفر کے دوران کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے بچّے عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی کام کے بوجھ تلے دبی افریقی عورتوں کے لیے کس قدر تسکین کی بات ہے۔ ان کی زندگیوں میں کیسا خوش گوار تغیر آ گیا ہے! درحقیقت پلاسٹک کی بالٹی کی لائی ہوئی مثبت تبدیلیاں بے شمار ہیں۔
قطار ہی کو لیجیے۔ جب پانی مٹکوں میں لایا جاتا تھا تو اکثر دن دن بھر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ استوائی سورج بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ اور اپنا گھڑا قطار میں چھوڑ کر خود سائے میں جا کھڑے ہونے کا خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ یہ بڑی قیمتی چیز تھی۔
آج ایسا کرنا ممکن ہے۔ بالٹی نے قطار میں کھڑے ہونے والے فرد کی جگہ لے لی ہے، اور آج کل پانی کی قطار بے شمار رنگ برنگی پلاسٹک کی بالٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ان کے مالک سائے میں کھڑے انتظار کرتے ہیں، بازار سے سودا سلف لانے چلے جاتے ہیں یا کسی دوست سے مل آتے ہیں۔
(پولستانی مصنّف، شاعر، صحافی اور ماہر فوٹو گرافر ریشارد کاپوشِنسکی
کی تحریر کا انگریزی سے اردو ترجمہ، اردو مترجم اجمل کمال ہیں)