تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

حکیم احمد شجاع: اردو کے مشہور انشا پرداز اور صف اوّل کے افسانہ نگار

حکیم احمد شجاع اردو کے مشہور انشا پرداز، افسانہ نگار، فلمی مصنّف اور شاعر تھے جنھوں نے 1969ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ تقسیمِ ہند سے قبل بھی حکیم احمد شجاع نے چند فلمیں‌ اور ان کے مکالمے تحریر کیے تھے، لیکن پاکستان میں‌ بطور مصنّف ان کی پہلی فلم شاہدہ تھی جو 1949ء میں‌ ریلیز ہوئی تھی۔

اردو کے اس معروف ادیب اور شاعر نے لاہور میں سنہ 1896ء میں‌ آنکھ کھولی۔ اسی شہر سے میٹرک کیا اور پھر ایم اے او کالج علی گڑھ سے ایف اے کی سند لی۔ میرٹھ کالج سے بی اے کرنے کے بعد شعبۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے۔ وہ ایک بیورو کریٹ کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے تھے اور 1920ء میں پنجاب اسمبلی سے منسلک ہونے کے بعد سیکریٹری کے عہدے تک پہنچے تھے۔ حکیم احمد شجاع مجلسِ زبان دفتری کے سیکریٹری بھی رہے۔ ان کے زیرِ نگرانی ہزاروں انگریزی اصطلاحات کا اردو ترجمہ ہوا۔ انھوں نے علّامہ اقبالؒ کے ساتھ مل کر اس دور کی اردو کی درسی کتب بھی مرتب کی تھیں۔

1948ء سے 1969ء تک مجلسِ زبان دفتری کے سیکرٹری کے طور پر حکیم احمد شجاع نے خوب کام کیا، لیکن رسالہ "ہزار داستان” اور بچوں کے لیے "نونہال” کا اجرا کر کے بھی انھوں نے علمی و ادبی سرگرمیوں میں‌ خود کو مشغول رکھا۔ حکیم احمد شجاع کی خود نوشت "خوں بہا” کے نام سے شایع ہوئی جب کہ ایک مشہور تصنیف لاہور کے اندرون بھاٹی دروازے کی ادبی تاریخ پر "لاہور کا چیلسی” کے نام سے تھی۔

حکیم احمد شجاع افسانہ اور ناول نگاری میں بھی معروف ہوئے اور ان کا ناول "باپ کا گناہ” بہت مشہور ہوا جسے انھوں نے ڈرامہ کے طرز پر لکھا تھا۔ یہ ناول 1922ء میں لکھا گیا تھا۔ اس ناول کی کہانی پر قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں متعدد کام یاب فلمیں بنائی گئیں۔

بطور مصنّف حکیم احمد شجاع کی پہلی پاکستانی فلم شاہدہ کے تمام گیت بھی انہی کے قلم سے نکلے تھے اور ان کی موسیقی بابا جی اے چشتی اور ماسٹر غلام حیدر جیسے عظیم موسیقاروں نے ترتیب دی تھی، لیکن اس فلم کا کوئی گیت مقبول نہیں ہوا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ حکیم احمد شجاع کو بطور فلمی شاعر کام یابی نہیں ملی۔

حکیم احمد شجاع کو اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے افسانے اور ناول کےعلاوہ اپنے منفرد طرزِ تحریر اور شان دار اسلوب میں اپنی خود نوشت اور دیگر کتب یادگار چھوڑیں۔ وہ لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -