بدھ, جون 26, 2024
اشتہار

ایورنیو اسٹوڈیو والے آغا جی اے گُل کا تذکرہ

اشتہار

حیرت انگیز

پاکستان میں فلمی صنعت کے قیام اور فلم سازی کے حوالے سے چند بڑے اور نمایاں ناموں میں سے ایک نام آغا جی اے گُل ہے جنھوں نے تقسیمِ ہند کے بعد یہاں فلم اسٹوڈیو بھی قائم کیا اور اس صنعت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔

آغا جی اے گُل کے لاہور میں قائم کردہ ایورنیو اسٹوڈیو کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور یہ ادارہ فلم سازی کے ساتھ لوگوں کو سنیما کی جانب متوجہ کرنے کا ذریعہ بنا۔ اُس زمانے میں ایورنیو اسٹوڈیوز کی رونق دیدنی تھی جس کے بینر تلے فنونِ لطیفہ اور سنیما کی دنیا میں قابلِ ذکر کام کیا گیا۔

پاکستان کی فلم انڈسٹری کے معمار آغا جی اے گُل ایک عرصہ تک پشاور کے تصویر محل سنیما کے سرپرست بھی رہے۔ انھوں نے اس شعبے کے لیے پاکستان میں گراں قدر خدمات انجام دیں جو پاکستان کی فلمی تاریخ کا حصّہ ہیں۔ آغا جی اے گل 1983 میں لندن میں آج ہی کے روز وفات پاگئے تھے۔

- Advertisement -

آغا جی اے گل نے کبھی کوئی فلم بطور ہدایت کار یا مصنّف نہیں بنائی، لیکن فلم ساز کے طور پر اپنی دو درجن فلموں کے باوجود انھیں عام طور پر فلم اسٹوڈیو اور فلم کمپنی کی وجہ سے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کے قائم کردہ ادارے ‘ایورنیو پکچرز’ کے تحت بننے والی پہلی فلم مُندری تھی جو پاکستان میں 1949ء میں بننے والی دوسری پنجابی فلم تھی۔ یہ ایک رومانوی اور نغماتی فلم تھی جس کے ہدایت کار داؤد چاند تھے۔ داؤد چاند پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد کے بھی ہدایت کار تھے۔

آغا جی اے گل کا تعلق پشاور سے تھا۔ 19 فروری 1913 کو پیدا ہونے والے اس فلم ساز نے اپنی اوّلین کاوش یعنی فلم مندری کے بعد پاکستانی سنیما کو اپنے ایورنیو پروڈکشنز کے تحت کئی یادگار فلمیں‌ دیں جن میں دلا بھٹی، لختِ جگر، نغمۂ دل، اک تیرا سہارا، قیدی، رانی خان، راوی پار، ڈاچی، عذرا، شباب، نجمہ اور نائلہ سرِفہرست ہیں۔ یہ اپنے وقت کی کام یاب فلمیں‌ تھیں اور آغا جی اے گل کے اسٹوڈیو نے کئی فن کاروں کو بھی آگے آنے کا موقع دیا۔ ان میں‌ اداکار ہی نہیں ہدایت کار اور فلم کی دنیا کے مختلف شعبوں کے وہ آرٹسٹ شامل ہیں جو تقسیم سے قبل کولکتہ اور بمبئی میں کسی نہ کسی حیثیت میں اپنے فن اور صلاحیتوں کا مظاہرہ کرچکے تھے اور قیامِ‌ پاکستان کے بعد یہاں آکر فلمی دنیا میں کام کی تلاش میں‌ تھے۔

آغا جی اے گل کا ایورنیو اسٹوڈیو اپنے زمانے میں فلم سازی کے جدید آلات اور ساز و سامان سے آراستہ ایسا اسٹوڈیو تھا جس نے نہ صرف پاکستانی شائقینِ سنیما کو معیاری فلمیں دیں بلکہ اس کے وسیلے سے کئی فن کاروں نے اپنے کنبے کی کفالت بھی کی۔ اس اسٹوڈیو میں‌ کئی مشہور اور کام یاب فلموں‌ کی عکس بندی کی گئی۔ یہاں فن کاروں کا میلہ لگا رہتا تھا جب کہ لاہور کے شہری بڑی تعداد میں فلم کی شوٹنگ اور اپنے پسندیدہ اداکار کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے یہاں کے آیا کرتے تھے اور اسٹوڈیو کے باہر لوگوں کا رش رہتا تھا۔

آغا جی اے گل لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں