آغا شاعر قزلباش اردو زبان و ادب کی ایک نہایت مشہور اور ممتاز شخصیت تھے۔ انھیں ہندوستان بھر میں استادِ فن اور زبان داں کے طور پر پہچانا جاتا تھا۔ وہ نظم اور نثر دونوں اصنافِ ادب میں اپنے کمالِ فن کی بدولت مشہور ہوئے۔ آغا صاحب کی قابلیت اور علمی استعداد کا عالم یہ تھا کہ شاعرِ مشرق علّامہ اقبال اور ان جیسے کئی بڑے نام اور قابل شخصیات بھی زبان و بیان کے معاملہ میں ان سے رجوع کرتی تھیں۔ آغا صاحب 11 مارچ 1940ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔
آغا شاعر قزلباش دہلوی شاعر اور ڈرامہ نویس بھی تھے۔ وہ اپنے وقت کے استاد شاعر داغ دہلوی کے شاگرد تھے، لیکن اس سے پہلے ہی زبان و بیان پر عبور اور مشاعروں میں اپنی خوش گوئی کے سبب ہر خاص و عام میں مشہور ہوچکے تھے۔ ان کے ہم عصر اور اپنے زمانے میں استاد شاعر کا درجہ رکھنے والے بھی آغا صاحب کے کلام کی فصاحت، روانی اور برجستگی کے معترف رہے۔ ہندوستان میں آغا شاعر قزلباش کے سیکڑوں شاگرد تھے۔
شاعر اور ادیب آغا صاحب 5 مارچ 1871ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آغا مظفر علی بیگ قزلباش تھا۔ ان کے جد اعلٰی ان سپاہیوں میں تھے جو نادر شاہ کی فوج میں شامل ہو کر دہلی آئے اور وہیں بس گئے۔ آغا شاعر کے والد آغا عبد علی بیگ بھی شاعر تھے اور فدائی تخلص کرتے تھے۔ دہلی کے کشمیری گیٹ کے محلّہ کھڑکی ابراہیم خاں میں سکونت پذیر یہ کنبہ آسودہ حال تھا۔ وہ اپنی ماں کے بہت لاڈلے تھے۔ آغا صاحب کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ عربی اور قرآن کا درس گھر پر لیا جب کہ فارسی ان کے گھر کی زبان تھی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد دہلی کی مشہور درس گاہ اینگلو عربک اسکول میں داخلہ ہوگیا اور وہیں سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا، اسکول کے زمانہ میں ہی مضمون نویسی اور شاعری کا شوق پیدا ہوا۔ اسی زمانہ میں آغا صاحب کی ماں وفات پاگئیں اور باپ کی دوسری شادی کے بعد وہ سوتیلی ماں کے ہاتھوں تنگ ہوتے رہے اور پھر انہیں گھر سے نکال دیا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنی علمی استعداد میں خود اضافہ کیا اور اپنے لکھنے پڑھنے کے شوق اور لگن کی بدولت کام یاب ہوئے۔ ان کا خط بہت عمدہ تھا اور اسی سے متاثر ہوکر ایک بیگم صاحبہ نے انھیں نہ صرف پناہ دی بلکہ اپنی غزلیں خوش خط لکھنے کا کام سونپ دیا۔ انہی کے توسط سے بعد میں وہ قدم جمانے میں کام یاب ہوئے اور دہلی کے مشاعروں میں ان کی شرکت لازمی ہوگئی۔ ان کی غزلیں گانے والیوں کے کوٹھوں میں گونجنے لگیں اور گلی کوچوں میں گائی جانے لگیں۔ بعد میں حیدرآباد دکن کا رخ کیا تو وہاں داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔ وہیں سے شوخیٔ مضمون اور روزمرہ کا بے تکلف استعمال آپ کے کلام کا جزوِ لازم بنا۔ آغا شاعر قزلباش ایک اچھے ڈرامہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے جو چند ڈرامے لکھے ان میں حورِ عرب مشہور ہوا۔
وہ گوناگوں صلاحیتوں کے مالک تھے۔غزلوں کے علاوہ ان کی نظمیں، مرثیے اور منظوم تراجم بھی مقبول ہوئے۔ انھوں نے ڈرامہ نگاری کے علاوہ انشائیہ بھی لکھا اور ناول نگاری بھی کی۔ انھوں نے قرآن پاک کا منظوم ترجمہ اور عمر خیام کے رباعیات کا بھی منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ان کی نثر کا مجموعہ بھی خمارستان کے نام سے شایع ہوا تھا۔ آغا شاعر قزلباش دہلوی کی شعری تصانیف میں تیر و نشر، آویزۂ گوش، دامنِ مریم اور پرواز شامل ہیں۔
آغا شاعر قزلباش کا ایک شعر دیکھیے
لو ہم بتائیں غنچہ و گل میں ہے فرق کیا
اک بات ہے کہی ہوئی اک بے کہی ہوئی
آغا شاعر کو آخری عمر میں مختلف بیماریوں نے گھیر رکھا تھا، جگر اور معدہ جواب دے گئے تھے۔ مہاراجہ کشن پرشاد شاد نے ماہانہ وظیفہ مقرر کر رکھا تھا، خیر پور سے بھی سالانہ وظیفہ ملتا تھا اسی پر گزر بسر تھی۔ بعد از مرگ صفدر جنگ کے قریب قبرستان درگاہ شاہ مرداں میں تدفین کی گئی تھی۔