آئی پی پیز کے معاہدے عوام پر بجلی بن کر گررہے ہیں، جن کا سارا بوجھ عوام کی جیبوں پر پڑا ہے، کیا ان معاہدوں سے چھٹکارا ممکن ہے؟
اس حوالے سے اے آر وائی کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر معاشیات خرم شہزاد نے گفتگو کرتے ہوئے اس مسئلے کا حل بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی پی پیز کے معاملے میں دو تین عوامل ہیں جبکہ صرف ایک مسئلے پر ہی بات کی جارہی ہے، جبکہ دوسری بات یہ ہے کہ بجلی کا مسئلہ نہیں بلکہ بجلی پہنچانے کا ہے۔ اس کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی کام نہیں کیا۔
جس کی وجہ سے لائن لاسز اور بجلی چوری کا مسئلہ کھڑا ہوجاتا ہے سو میں سے تیس یونٹ ضائع ہوجاتے ہیں اور اس کا اثر ایک عام آدمی کے بل پر بھی پڑتا ہے۔ جہاں تک کیپسٹی پیمنٹ کی بات ہے اس کے معاہدے پالیسی سازوں اور حکومتوں نے بنائے۔
خرم شہزاد نے کہا کہ بجلی کے بل بڑھنے کی وجوہات میں لائن لاسز کے علاوہ گردشی قرضوں کا بھی حصہ ہے اس کے علاوہ دیگر ٹیکسز بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کی وجہ ہیں۔
آئی پی پیز کے معاہدوں میں ترمیم یا اسے منسوخ کیے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ کسی بھی معاہدے میں شرائط و ضوابط کی وضاحت کی جاتی ہے کہ اس میں ایسی شق ہوتی ہے جب کوئی ایسا مسئلہ یا مشکل آئے گا تو مسئلہ کو حل کیا جاسکتا ہے۔