پاکستان بننے کے ایک آدھ برس بعد پنجاب کے ایک جوان سال وزیر نے اپنے ایک اخباری دوست سے کہا: ”بھئی! کبھی ہمارا بھی رابطہ عوام سے کرواؤ۔“ چناں چہ وہ صحافی ایک روز وزیر صاحب کو لے کے موچی دروازے جا پہنچا۔
لوگوں نے جب اپنے درمیان یوں اچانک ایک وزیر کو دیکھا، تو چاروں طرف سے امڈ آئے۔ ہر شخص مصافحے کے لیے بے قرار تھا۔ کچھ من چلے تو معانقوں پر اتر آئے۔ وزیر صاحب کچھ دیر تو یہ رابطہ برداشت کرتے رہے اور پھر اپنے کرم فرما سے کہنے لگے: ”یار، ہمیں اتنا بھی تو ارزاں نہ کرو!“
جمہوریت کے اس حمام میں صرف ہمارے وزیر صاحب ہی ننگے نہیں پائے گئے تھے۔ امریکا کے ایک سابق صدر تھیوڈور روز ویلٹ کے بارے میں ان کے ایک دوست لکھتے ہیں کہ جب وہ رابطے کی مہم سے لوٹتے تو سیدھے اپنے محل کے غسل خانے میں جاتے اور صابن سے ہاتھ دھوتے، تاکہ مصافحوں کا میل اتر جائے۔
(مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ سے اقتباس)