یہ تذکرہ ہے شاد عارفی کا جو اردو کے اہم شاعروں میں سے ایک تھے۔ غزل اور ںظم دونوں ہی اصناف میں شاد نے طبع آزمائی کی اور اپنی پہچان بنائی۔
ان کا اصل نام احمد علی خان اور شاد ان کا تخلص تھا۔ وہ زندگی بھر معاش کے لیے جدوجہد کرتے رہے اور کٹھن حالات کا سامنا کیا۔ زندگی کی تلخیوں نے ان کی زبان پر بھی گویا تلخی گھول دی تھی۔ ہم عصروں پر نکتہ چینی اور ان کے بارے میں شاد کی رائے اکثر اچھی نہ ہوتی۔
‘مشاہیر، خطوط کے حوالے سے…’ وہ عنوان ہے جس کے تحت دکن کے معروف ادیب اور نقاد رؤف خیر کے چند تنقیدی مضامین اکٹھے کیے گئے ہیں جن میں سے ایک مضمون میں انھوں نے شاد عارفی کو ان کے مکاتیب کی اوٹ سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ رؤف خیر نے اس کے ابتدائیہ میں لکھا ہے: یہ ادب کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اب خطوط لکھے ہی نہیں جا رہے ہیں۔ ادب ہی کیا کسی بھی فن کے نابغۂ روزگار کے خطوط بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ تحریر کا حسن اور واقعیت خطوط ہی سے تو جھلکتی ہے جو لکھنے والے کا ذہن اور ذہنیت پڑھنے میں مدد کرتی ہے۔ آگے چل کر رؤف خیر نے شاد عارفی پر بات کی ہے جس سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ رؤف خیر لکھتے ہیں:
شاد عارفی زندگی بھر مسائل سے دوچار رہے۔ ماں کا مکان بیچ کر ماں کی تجہیز و تکفین کی۔ بیوی چند ہی ماہ ساتھ دے کر اسقاطِ حمل کے ساتھ خود بھی زندگی سے منہ موڑ گئیں۔ اولاد کا سکھ شاد نے نہیں دیکھا۔ رام پور میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کر کے گزارہ کرتے تھے۔ کچھ ٹیوشن کر لیا کرتے تھے۔ مختلف فیکٹریوں میں معمولی سے کام پر لگے ہوئے تھے۔ رام پور کی مشہور صولت پبلک لائبر یری میں لائبریرین کی طرح کچھ دن گزارے۔ کبھی کہیں بجٹ اکاؤنٹنٹ بنے رہے۔ نواب رام پور کی شخصی حکومت کے شاد خلاف تھے۔ گویا وہ رام پور کے مخدوم محی الدین تھے۔ شاد لکھتے ہیں:
’’آخر میں جب ریاست (رام پور) مرج ہونے لگی تو اس سے پہلے رام پور کی پبلک نے کانگریس سے مل کر آئینی حکومت کا مطالبہ شروع کر دیا۔ میں اس میں برابر کا شریک رہا۔ بیسیوں نظمیں حکومت پر جائزہ کے تحت لکھ کر اپنا فرض ادا کیا کہ یہ شخصی حکومت اور اس کا ظلم و ستم ختم ہو۔ کانگریس بر سر اقتدار آ کر ان تاجداروں اور ظل الٰہیوں کو ان کی تنخواہوں مقرر کر کے نظم و نسق خود سنبھال لے۔ جمہوریت کا دور دورہ ہو۔ عوام کو پنپنے کا موقع ملے۔‘‘
اور مزے کی بات یہ کہ عوامی جمہوریت کے خواہش مند شاعر کو ترقی پسندوں نے کبھی گلے نہیں لگایا اور برسر اقتدار آ کر خود کانگریس نے شاد کو ’’خطرناک‘‘ سمجھ کر دودھ کی مکھی کی طرح نکال پھینکا۔
شاد عارفی اپنی درد ناک زندگی کے بارے میں خود ایک خط میں لکھتے ہیں: ’’اس وقت میری عمر ۶۲باسٹھ سال ہے۔ ۱۹۰۰ء میری پیدائش ہے، اس لیے سن کے ساتھ ساتھ چل رہا ہوں۔ بھارت کی حکومت کے دس مہینے کے بعد ملازمت سے مستعفی ہونا پڑا۔ جب سے بے نوکری، بے سہارا ہوں۔ مگر اس مدت میں میرا پرونڈنٹ فنڈ حکومت نے اب تک نہیں دیا بلکہ حال ہی میں اکاؤنٹنٹ جنرل الہ آباد نے بہت غل غپاڑے کے بعد بڑا معقول جواب دیا ہے کہ چونکہ تمہارے حسابات کے رجسٹر کھو گئے ہیں اس لیے تمہارا فنڈ بحق سرکار ضبط کیا جاتا ہے، اس لیے صبر کرو اور بھارت کی حکومت کو اس کی درازی عمر کی دعائیں دو۔ والدہ صاحبہ کی پنشن بھی بھارت سرکار نے بلا سبب بند کر دی۔ یہ پنشن ریاست لوہارو سے تھی۔ متواتر درخواستیں دیں مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی اور وہ انتظار کرتے کرتے راہی بقا ہو گئیں۔
میں نے گھر بیچ کر مرحومہ کی تجہیز و تکفین کی، جس کا نتیجہ آج تک بھگت رہا ہوں اور شہر کے اندر کرائے کے مکانوں میں خانہ بدوش زندگی گزار رہا ہوں۔‘‘ (بحوالہ: ایک تھا شاعر)
اور ان کرائے کے مکانوں کا حال بھی شاد عارفی نے ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔
باہر برکھا بیت چکی ہے اندر ٹپکا لگا ہوا ہے
آدھے بستر پر لیٹا ہوں آدھا بستر بھیگ چکا ہے
یہ ساری مصیبتیں یہ سارے مسائل اس لیے تھے کہ شاد عارفی اپنے کھرے پن کی وجہ سے کسی قسم کی مصلحت یا مصالحت پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔