اشتہار

معروف دانشور احمد ندیم قاسمی کو ہم سے بچھڑے 16برس بیت گئے

اشتہار

حیرت انگیز

اردو کے ناموَر افسانہ نگار، شاعر، نقّاد، مترجم اور صحافی و مدیر احمد ندیم قاسمی کا آج 41واں یوم وفات ہے۔ ان کا شمار ترقّی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں ادبی شخصیات میں ہوتا تھا۔

احمد ندیم قاسمی کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ انھوں نے 20 نومبر 1916ء کو ضلع خوشاب کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گریجویشن مکمل کی۔ دیہاتی زندگی کا گہرا مشاہدہ کیا اور تنگی و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے علم و ادب کی جانب راغب ہوئے اور نام و مقام پیدا کیا۔

اپنی طرز کے منفرد شاعر احمد ندیم قاسمی بہاولپور سے لاہور پہنچے تو اختر شیرانی سے ملاقات ہوئی۔ وہ انہیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی کی۔

- Advertisement -

لاہور میں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنہوں نے انہیں اپنے بچوں کے رسالے پھول کی ادارت سونپ دی۔ ایک سال ادارت کی اور اس دوران بچوں کے لیے بہت سی نظمیں بھی لکھیں ۔ ادب کی دنیا میں قدم رکھا تو جس صنف میں طبع آزمائی کی اسے امر کر دیا۔

احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے، انھوں نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی ہے، لیکن افسانہ اور شاعری ان کا بنیادی حوالہ ہیں۔

احمد ندیم قاسمی کے شعری مجموعوں میں دھڑکنیں، رم جھم، جلال و جمال، لوحِ خاک جب کہ افسانوی مجموعوں میں چوپال، بگولے، طلوع و غروب، آنچل، آبلے، برگِ حنا، سیلاب و گرداب و دیگر شامل ہیں۔

انھوں نے تنقیدی مضامین بھی لکھے جنھیں تہذیب و فن، پسِ الفاظ اور معنٰی کی تلاش نامی کتب میں‌ محفوظ کیا جب کہ شخصیات پر مبنی ان کے خاکوں کے دو مجموعے بھی شایع ہوئے۔

وہ 10 جولائی 2006ء کو 90 سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوگئے، ادبی افق پر ان کی تحریں آج بھی قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہیں۔

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں