ہفتہ, جولائی 5, 2025
اشتہار

احمد شاہ ابدالی: جدید افغانستان کا معمار

اشتہار

حیرت انگیز

احمد شاہ ابدالی 25 برس کی عمر میں شاہِ افغانستان منتخب ہوئے تھے۔ فوج کے اس سالار اور قبائلی سردار کو 1747ء میں قندھار میں منعقدہ ایک جرگے میں ریاست کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا اور یہ انتخاب صرف اس لیے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ باصلاحیت اور دوراندیش تھے بلکہ احمد شاہ ابدالی نے عملی زندگی میں خود ایک زبردست جنگجو اور بہترین منتظم بھی ثابت کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ خوش اخلاق اور شائستہ انسان تھے جو اپنے ساتھیوں اور اشرافیہ میں بھی یکساں مقبول تھے۔

پُرکشش شخصیت کے مالک احمد شاہ ابدالی متعدد جنگیں‌ لڑ چکے تھے۔ بادشاہ بننے کے بعد بھی انھیں افغانستان کے عوام سے بڑا پیار، عزّت اور احترام ملا۔ انھوں نے تمام افغان قبائل کو اکٹھا کرکے ایک افغان ریاست کی بنیاد رکھی۔ احمد شاہ، افغانوں کے ایک بڑے اور مشہور ابدالی قبیلے کے فرد تھے۔ ان کی سلطنت بعد میں درّانی سلطنت کے نام سے مشہور ہوئی۔ مؤرخین کے مطابق احمد شاہ بدالی 1722ء میں ملتان میں پیدا ہوئے۔ جرمنی کے ایک مشہور مفکّر اور مؤرخ فریڈرک اینگلز نے 1857ء میں اپنی کتاب جنگِ افغانستان میں اس ملک کا جغرافیہ، حالات اور واقعات رقم کیے ہیں‌ جس میں وہ لکھتا ہے: "افغانستان، فارس اور ہند کے درمیان میں ایشیا کا ایک وسیع ملک ہے، دوسری جانب سے یہ ہندو کش کے سلسلے اور بحرِ ہند کے درمیان پڑتا ہے۔ اس کے صوبہ جات میں فارس کا صوبہ خراسان، کشمیر اور سندھ شامل ہیں، خطۂ پنجاب کا ایک حصّہ بھی شامل ہے۔ اس کے مرکزی شہر کابل، غزنی، پشاور اور قندھار ہیں۔” بعد میں احمد شاہ ابدالی نے کئی فتوحات حاصل کرکے سلطنت کو وسعت دی اور اس کا دائرہ مغربی ایران سے لے کر ہندوستان کے شہر سرہند تک پھیل گیا۔ ابدالی کی حکم رانی شمال میں وسطی ایشیا کے آمو دریا سے لے کر جنوب میں بحرِ ہند کے ساحل تک تھی۔

کہتے ہیں کہ احمد شاہ ابدالی نے اپنے ملک کے لوگوں کو ایک نئی پہچان اور آزاد ملک دیا۔ یوں تو افغانستان کی تاریخ کئی سو صدی پرانی ہے، جس میں یہ خطّہ مختلف ناموں سے پہچانا جاتا رہا۔ لیکن احمد شاہ ابدالی کے دور میں اسے خاص مقام حاصل ہوا۔ سولھویں صدی سے اٹھارویں صدی عیسوی تک یہ ریاست کئی حصّوں میں منقسم تھی جسے احمد شاہ کے دور میں اٹھارویں صدی کے وسط میں ایک ملک کے طور پر ابھرنے کا موقع ملا اور یہی وجہ ہے کہ احمد شاہ بابائے افغان کہلائے۔ انھیں اکثر احمد شاہ بابا بھی کہا جاتا ہے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ اس ملک پر ایرانی، یونانی اور منگولوں کے بعد جب انگریزوں اور روسیوں نے قبضہ کرنا چاہا تو انھیں سخت مزاحمت اور شدید لڑائی کا سامنا کرنا پڑا اور افغانوں نے کبھی غیرملکی تسلط کو قبول نہیں‌ کیا۔

احمد شاہ ابدالی کا دورِ حکومت 25 برسوں پر محیط ہے جس میں انھوں نے ایران نادر شاہ کے زیرِ نگیں علاقوں پر درّانی سلطنت قائم کی۔ نادر شاہ کو قتل کردیا گیا تھا اور احمد شاہ ابدالی جو نادر شاہ کی فوج میں کمانڈر تھے، افغانستان کے بادشاہ منتخب ہوگئے۔ احمد شاہ ابدالی کی موت کے بعد ان کی اولاد نے اقتدار سنبھالا تھا۔

احمد شاہ ابدالی کا ذکر تاریخ میں مرہٹوں سے پانی پت میں مشہور جنگ کے سبب بھی محفوظ رہے گا۔ پانی پت کی جنگ میں ہندو مرہٹہ کو شکست دے کر احمد شاہ ابدالی نہ صرف ان کا زور توڑنے میں کام یاب ہوئے بلکہ اُن کی اس کام یابی سے ہندوستان کا مغل خاندان بھی محفوظ ہوگیا جن کے لیے مرہٹہ بڑا خطرہ تھے۔

انیسویں صدی کے اوائل میں دنیا نے جمہوریت اور مختلف نظام ہائے مملکت دیکھے اور اسی عرصہ میں سیاست دانوں نے درّانی سلطنت کے لیے باقاعدہ لفظ افغانستان استعمال کرنا شروع کیا۔ آج افغانستان ایک زمین بند ملک ہے جس کے جنوب اور مشرق میں پاکستان، مغرب میں ایران، شمال مشرق میں چین جب کہ شمال کی طرف ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان موجود ہیں اور یہ بھارت کا بھی ہم سایہ ہے۔

1773ء میں آج ہی کے روز احمد شاہ ابدالی وفات پاگئے تھے۔ ان کا مقبرہ افغانستان کے مشہور شہر قندھار میں واقع ہے۔ مقامی اور غیرملکی مؤرخین نے بھی ابدالی کے دورِ‌ حکومت اور بطور بادشاہ کارناموں کو سراہا ہے۔ ایک ہندوستانی مؤرخ گنڈا سنگھ کی انگریزی زبان میں لکھی گئی کتاب ’احمد شاہ ابدالی درانی: جدید افغانستان کے معمار‘ میں لکھا ہے ’احمد شاہ ابدالی نے اپنی پوری زندگی ملک کی بہتری کے لیے وقف کر دی تھی اور وہ آج بھی افغان لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں۔ اتنا ہی نہیں جنوبی اور سینٹرل ایشیا کے مسلمانوں کی بڑی تعداد ان کا نام ادب سے لیتی ہے۔ ‘

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں