پیر, جنوری 27, 2025
اشتہار

احمد حسن دانی:‌ علمِ‌ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر

اشتہار

حیرت انگیز

عالمی شہرت یافتہ علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر احمد حسن دانی ایک نادرِ روزگار شخصیت تھے جنھیں پاکستان میں ایک دانش ور اور ماہرِ لسانیات کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج پروفیسر احمد حسن دانی کی برسی ہے۔

وہ تیس سے زیادہ کتابوں کے مصنّف ‌تھے اور ان کی آخری تصنیف تاریخِ پاکستان کے نام سے وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی منظرِ عام پر آئی تھی۔ شمالی پاکستان اور وسط ایشیا کی قدیم تاریخ سے متعلق احمد حسن دانی کی علمی اور تحقیقی کتب بڑا سرمایہ ہیں۔ انھوں نے ساسانی بادشاہت پر بھی تحقیقی کام کیا اور جے پی موہن کے ساتھ مل کر تاریخِ انسانیت نامی انسائیکلو پیڈیا کی تیسری جلد مرتب کی تھی۔ سینئر صحافی عارف وقار لکھتے ہیں، وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں۔

20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولنے و الے احمد حسن دانی نے تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے تو ان کے والد کا تبادلہ ناگ پور ہوگیا۔ اردو عربی اور فارسی تو اسی زمانہ میں سیکھ لی تھیں، اور پھر ناگ پور میں اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع مل گیا۔ اس سے ان کے اندر زباں فہمی کا شوق پیدا ہوا اور بعد میں انھوں نے مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ احمد حسن دانی کو اسی خصوصیت کی بنا پر ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے شعبے میں ان کی کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔

- Advertisement -

1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے احمد حسن دانی کی قابلیت اور ان کی تاریخ و ثقافت میں گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ میں عہدہ تفویض کردیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی اور وہ ان کے علم اور لگن سے بہت متاثر ہوئے۔ ویلر انھیں اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ بعد میں اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی احمد حسن دانی نے ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی سائٹ پر کام کیا اور دریافت و تحقیق میں حصّہ لیا۔ بعد ازاں برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے احمد حسن دانی کو ہندوستان کی شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ پروفیسر دانی سمجھتے تھے کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

برصغیر کی تقسیم کے بعد احمد حسن دانی پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال‘‘ تھا۔

1947ء سے 1949ء تک پروفیسر احمد حسن دانی محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔ جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ کی بنیاد رکھی گئی تو پروفیسر احمد حسن دانی کو سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دور میں انھوں نے پشاور، وادیٔ سوات اور دیگر علاقوں میں بعض مقامات پر کھدائی کا کام کروایا اور بہت سے نوادرات اور آثار وہاں سے برآمد ہوئے جن سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔

ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ادوار میں ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے 1980ء میں ریٹائر ہوئے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور اواخرِ عمر تک وہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔

ڈاکٹر احمد حسن دانی 1971 میں اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے اور وہاں قائدِاعظم یونیورسٹی میں شعبۂ علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کرکے ریٹائرمنٹ تک اسی سے وابستہ رہے۔ اسلام آباد ہی میں 26 جنوری 2009ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔

ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے اپنے شعبہ جات میں احمد حسن دانی کی اعلٰی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز دیا جب کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں جامعات کی سطح پر اعلیٰ تعلیمی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہونے اور شہریت دینے کی پیشکش کی، لیکن انھوں نے پاکستان نہیں چھوڑا۔ مختلف کتب کے علاوہ احمد حسن دانی کے مضامین اور مقالہ جات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی رہے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں