تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

جن چیزوں کو ہم تفریح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ تفریح کہلا سکتی ہیں یا نہیں؟

’’آج کل ضروری اور غیر ضروری مصروفیات کی ایسی یلغار ہے کہ ہمیں کچھ بہت بڑی ذمے داریاں ادا کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ ان میں سے ایک، تفریح ہے۔

تفریح کو ذمے داری کہنا عجیب سا محسوس ہو سکتا ہے، لیکن میں نے یہ لفظ سوچ سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ کسی بھی مثبت افادیت کے حصول کی کوشش اور اہتمام آدمی کی ذمے داری ہی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم لوگ تفریح سے کنارہ کش ہو کر بے کیفی اور بیزاری کی زندگی گزار رہے ہیں، لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ جن چیزوں کو ہم تفریح سمجھ بیٹھے ہیں، وہ چیزیں تفریح کہلا سکتی ہیں یا نہیں۔ مثلاً کمپیوٹر پہ گھنٹوں کھیلنا، فلمیں دیکھنا تفریح ہے یا تعذیب! اسی طرح کبھی کبھی کسی خوب صورت اور پُرفضا مقام کی سیر کو جانا اور وہاں کے سارے مناظر کو آنکھوں سے کم اور کیمرے سے زیادہ دیکھنا، اس سارے سیر و سفر کو تفریح کہا جا سکتا ہے یا نہیں؟

میرا تو یہ خیال ہے کہ ہم رفتہ رفتہ تفریح اور تماش بینی کا فرق بھولتے جا رہے ہیں۔ کمپیوٹر اور کیمرے نے ہمیں اس طرح جکڑ رکھا ہے کہ ہم شفاف اور خالص احساسات سے قریب قریب محروم ہو چلے ہیں۔ کوئی خوب صورت منظر بس کیمرے میں محفوظ ہو جاتا ہے، دل کا البم خالی ہی پڑا رہتا ہے۔ خوب صورتی میں قلب و ذہن کو مشغول رکھنے والی جو گہرائی، کشش اور تہ داری ہوتی ہے ہم اس سے بالکل نا مانوس اور بے خبر ہیں۔ ہمارا جمالیاتی شعور اس حد تک معطل بلکہ مردہ ہو چکا ہے کہ ہم حسن کو اپنے اندر جذب کرنا بھول چکے ہیں۔ اس حسن کو جو جمالیاتی شعور کو بھی سیراب کرتا ہے اور اخلاقی شعور کو بھی مطمئن رکھتا ہے، جو آنکھوں سے دیکھا جاتا ہے اور دل و دماغ میں صورت سے معنی بننے کا عمل پورا کرتا ہے۔ ہم یہ جانتے ہی نہیں ہیں کہ آنکھوں کی رسائی میں آیا ہوا ہر اچھا منظر اپنے اندر ایک ان دیکھا پن بھی رکھتا ہے جسے عین لمحۂ دید میں دل محسوس کر لیتا ہے اور ذہن بھانپ لیتا ہے۔ کیمرے نے ہمارے جمالیاتی شعور کا متبادل بن کر دید و نادید کی اور حضور و غیاب کی فطری روایت کو غارت کر کے رکھ دیا ہے اور ستم یہ ہے کہ ہم یہ جاننے اور محسوس کرنے کے قابل ہی نہیں رہ گئے کہ سیل فون میں لگا ہوا یہ کیمرا، جسے ہم اپنی اصلی آنکھ بنا چکے ہیں، ہمیں کتنی تیزی سے آدمیت سے خالی کرتا جا رہا ہے بلکہ شاید کر چکا ہے۔

مشینوں سے تفریح کشید کرنے کی ایسی عادت پڑ چکی ہے کہ ذہن اور طبیعت کا انسانی پن ختم ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ خوش ہونا بھول گئے ہیں اور غمگین ہونا بھی۔ خوشی اور غم احساسات کی اصل ہیں اور خیالات کی تشکیل میں بھی ان کا بہت بنیادی کردار ہے، یہی اگر ہمارے اندر سے غائب ہونے لگیں تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اب ہماری بناوٹ آدمیوں جیسی نہیں رہی۔ یہاں بڑی خوشی اور بڑے غم کی بات نہیں ہو رہی، معمولی باتیں اور عام سے نظارے اگر ہمارے اندر خوشی اور غم کے اسباب نہیں بنتے تو یہ بھی بڑی خرابی کی بات ہے۔ بچوں کی لڑائی کا منظر، پرندوں کی اڑان کا نظارہ، کسی جانور کو ٹوٹی ٹانگ کے ساتھ چلنے کی کوشش کرتے دیکھنا…. یہ سب معمول کے واقعات ہیں، لیکن اگر انہیں دیکھ کر ہمارے اندر خوشی اور غم کے احساسات نہیں پیدا ہوتے تو ہم آدمی ہونے کی ذمے داری پوری کرنے کے لائق نہیں ہیں۔ اسی طرح کسی جانے یا انجانے آدمی کو خوش یا غمگین دیکھ کر وہ خوشی اور غم اگر ہمیں اپنے اندر منتقل ہوتا ہوا محسوس نہیں ہوتا تو اس کا بھی یہی مطلب ہو گا کہ ہماری آدمیت میں کوئی خلا پیدا ہو گیا ہے۔

اگر ہم اپنے بارے میں، یعنی انسان کے بارے میں روایتی اور کلاسیکی موقف رکھتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمیں یہ محسوس نہ ہو رہا ہو اور یہ دکھائی نہ دے رہا ہو کہ وہ زمانہ زیادہ دور نہیں رہ گیا جب ہمارا دماغ آدمیوں کا سا نہیں رہ جائے گا اور ہمارے احساسات بھی غیر انسانی ہو جائیں گے۔ یعنی ہمارا اپنے بارے میں تصور ایک مشین کا سا بن جائے گا۔ ہم اپنے بارے میں سوچیں گے بھی تو یہ اسی طرح ہو گا جیسے ایک ٹیپ ریکارڈر اپنے متعلق سوچ رہا ہو۔ بہت بڑا بحران آچکا ہے اور اس کے نتیجے میں آدمی کی زندگی کے تمام گوشے تاریک اور ٹھنڈے ہوتے جا رہے ہیں۔ خود اپنے آپ سے تعلق ختم ہوتا جا رہا ہے اور خود کو دیکھنے، خود سے خوش رہنے یا اپنے اوپر غمگین ہونے کی گنجائشیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔

ایک عجیب سا چلتا پھرتا خلا ہے جسے ہم اپنی شخصیت ماننے پر مجبور ہیں۔ میری عمر کے لوگ اگر کمپیوٹر وغیرہ کی فیلڈ سے متعلق نہیں ہیں تو وہ اس خطرے کا شکار ہونے سے قدرے محفوظ ہیں لیکن اس خطرے کے نتائج بھگتنے پر مجبور ہیں۔ یعنی گھر اور گھر کے باہر کی معاشرت میں لاتعلقی کا غلبہ سب سے زیادہ بوڑھے لوگوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ تنہائی اختیاری ہو تو آبِ حیات ہے مگر یہی تنہائی جبری ہو تو زہر کا پیالا ہے۔ لگتا ہے کہ آگے چل کر یہ زہر کا پیالا بوڑھے لوگوں اور ضعیف والدین کی کل متاع بن کر رہ جائے گا۔

اور دوسری طرف ہماری اگلی نسلیں ہیں جو گویا زہریلے پانی میں تیراکی کر رہی ہیں۔ اور زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ اس زہراب میں غوطہ زنی کی عادت ڈال لینے کی وجہ سے ان کے اندر سے میٹھے پانی کا تصور ہی غائب ہوتا جا رہا ہے۔ وہ تمام چیزیں، جو آدمی ہونے کے لیے ضروری ہیں، اگلی نسلوں میں سے تیزی کے ساتھ رخصت ہوتی جارہی ہیں کمپیوٹر اور موبائل فون وغیرہ ایک آگ کی طرح تمام طبقات میں پھیل چکے ہیں۔ یہ آگ وقت کو، لوگوں کی شخصیت کو اورسوسائٹی کی روایتوں کو بھسم کرتی جا رہی ہے۔ اب اس آگ میں جلنے کے لیے کمپیوٹر کا فن آنا بھی ضروری نہیں رہ گیا۔ ایک اَن پڑھ آدمی بھی خود کو اس کا ایندھن بنانے پر اچھی طرح قادر ہے۔ لیکن ہماری سب خرابیوں کی ذمے داری موبائل فون اور لیپ ٹاپ پر نہیں جاتی۔ ان سے تو بس یہ ہوا ہے کہ ان خرابیوں کے پھیلاؤ کی رفتار تیز ہو گئی ہے۔ ان آلات کی آمد سے پہلے ہی ہمارے اندر آدمیت کی منہائی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ ہماری آدمیت، بندگی کے محور سے ہٹ چکی تھی۔ یوں سمجھیں کہ معاشرہ پہلے ہی سے دلدل بن چکا تھا۔ ان آلات کی آمد سے اس دلدل میں طغیانی پیدا ہو گئی جس کی لپیٹ میں بچوں سے لے کر بڑوں تک اب پورا معاشرہ آ چکا ہے۔

سچی بات ہے کہ ہم آگ کے شامیانے میں رہ رہے ہیں، آگ کی قناتوں نے ہمارا حصار کر رکھا ہے اور باہر نکلنے کا نہ کوئی راستہ ہے اور نہ ہی راستہ ڈھونڈنے اور نکالنے کی کوئی اجتماعی خواہش۔ اس صورت حال سے نجات پا سکنے کی امید بھی خوش فہمی سے زیادہ کچھ محسوس نہیں ہوتی۔‘‘

(احمد جاوید کی کتاب ’ تربیتی مجالس‘ سے اقتباسات)

Comments

- Advertisement -