احمد ندیم قاسمی نے جہاں اردو شاعری، افسانہ اور ادب کی مختلف اصناف کو بطور تخلیق کار اور بحیثیت مدیر اپنی علمیت اور ادبی بصیرت سے سجایا، وہیں انھوں نے سیاست اور پڑوسی ممالک سے تعلقات پر کالم اور اداریے بھی لکھے جن میں ہلکے پھلکے اور شگفتہ پیرائے میں وہ بھارتی حکومت کی پالیسیوں اور اقدامات پر طنز کرتے ہیں۔
آج جنگ میں شکست کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف بیانات اور جھوٹے دعوؤں کا سلسلہ جاری ہے، لیکن اس تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ نئی بات نہیں ہے۔ بھارت آج سے پہلے بھی امن اور بھائی چارے کا ڈھول تو پیٹتا رہا ہے، مگر اس کی نیت خراب ہی رہی ہے۔ کشمیر سمیت دیگر مسائل کے حل کے لیے بھارت نے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی بلکہ وہ بدنیتی اور جارحیت پر مبنی سیاست اور سفارت کاری کی مثال بنا رہا ہے۔احمد ندیم قاسمی کے قلم سے نکلی یہ تحریر ملاحظہ کیجیے:
بھارتی وزیر دفاع مسٹر سورن سنگھ نے کہا کہ ہم نے اپنی طرف سے ہمیشہ یہ کوشش کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ہمارے تعلقات سدھر جائیں، مگر پاکستانی لیڈروں نے ہندوستان کے خلاف ہمیشہ بہت کڑا رویہ اختیار کیے رکھا اور ہندوستان کی طرف سے خیر سگالی کے جذبات کو ٹھکرا دیا۔
ہم سورن سنگھ صاحب سے متفق ہیں کہ ہندوستان نے خیر سگالی کا ماحول پیدا کرنے میں واقعی کوئی کمی نہ کی۔ مثال کے طور پر ہندوستان کی اس پیش کش کو پیش کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کشمیر کے موضوع پر بھی پاکستان سے گفتگو و شنید کرنے کو تیار ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ گفتگو و شنید صرف اس موضوع پر ہو سکتی ہے کہ اس موضوع پر کوئی گفتگو و شنید نہیں ہو سکتی۔ ظاہر ہے پاکستانی لیڈر اس معیار کی خیرسگالی کو ٹھکرا دیتے ہیں کیوں کہ اس خیرسگالی میں ”کتابت“ کی غلطی ہو جاتی ہے۔ ہندوستان کی یہ خیر سگالی دراصل ”غیر سگالی“ ہے!
ہندوستانی وزیر دفاع نے پاکستان کی طرف سے چین کے ساتھ بھی جذبات خیر سگالی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے چین کو آگاہ کیا ہے کہ تم 1962ء میں ہندوستان پر حملہ کر چکے ہو، مگر 1968ء کے ہندوستان اور 1962ء کے ہندوستان میں زمین و آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے اور تم نے ہندوستان پر حملہ کیا، تو تمہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یعنی وزیر دفاع نے اعتراف کیا ہے کہ 1962ء میں خمیازہ ہندوستان ہی کو بھگتنا پڑا۔ یہ اعتراف حقیقت کا بالواسطہ اظہار ہے۔ جب کوئی کہے کہ آج جو ہوا، سو ہوا مگر کل میں تمہاری خوب خبر لوں گا، تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آج تم نے میری خوب خبر لی…! پھر سورن سنگھ نے یہ وضاحت بھی کی کہ یہ جو 1968ء اور 1962ء میں زمین اور آسمان کا فرق پیدا ہو چکا ہے، تو انہوں نے زمین کس سال کو قرار دیا ہے اور آسمان کس سال کو۔ یہاں ہمیں ایک امریکی کا لطیفہ یاد آگیا ہے کہ جب اس سے کسی دوست نے پوچھا کہ شادی کا تم پر کیا اثر ہوا تو وہ بولا ”شادی کے بعد میں لکھ پتی ہوگیا۔“ دوست نے کہا ”بڑی خوشی کی بات ہے مگر شادی سے پہلے تم کیا تھے۔“ امریکی بولا ”شادی سے پہلے میں کروڑ پتی تھا۔“