کووڈ 19 کی وبا نے دنیا بھر میں جہاں ایک طرف تو طبی ایمرجنسی نافذ کردی، وہیں اس وبا کے دوران دنیا کے طبی نظام میں موجود خامیوں کی بھی نشاندہی ہوئی۔ یہ وبا مختلف ممالک کے لیے ایک موقع ہے کہ وہ اپنے طبی نظام میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں اور اصلاحات کرسکیں۔
اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور خاص طور پر مصنوعی ذہانت کا بھی استعمال کیا جارہا ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت میڈیکل ریسرچ اور طبی اصلاحات میں کس طرح مددگار ثابت ہورہی ہے، اس حوالے سے محمد عثمان طارق کچھ اہم سوالات کے جواب دے رہے ہیں۔
محمد عثمان طارق فلوریڈا انٹرنیشنل یونیورسٹی کے اسکول آف کمپیوٹنگ اینڈ انفارمیشن سائنسز سے وابستہ ہیں، ان کی تحقیق آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے مختلف امراض کی تشخیص اور اس کے علاج کے گرد گھومتی ہے۔
محمد عثمان طارق بتا رہے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں کس طرح پرسنلائزڈ میڈیسن کی تیاری پر کام کیا جارہا ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ ہر شخص کی قوت مدافعت اور دواؤں پر اس کے جسم کے ردعمل کے حساب سے دوا تیار کی جائے تاکہ مریض کے صحت یاب ہونے کا امکان بڑھ جائے۔
اس سوال پر، کہ کیا ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے ویکسینز بھی تیار کی جاسکیں گی؟ ان کا کہنا تھا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ ویکسین بھی ہر شخص کی قوت مدافعت کے حساب سے مختلف اثرات مرتب کرسکتی ہے۔
اس کی حالیہ مثال کرونا ویکسین کی ہے جس نے کچھ افراد پر ویسے اثرات مرتب نہیں کیے جس کی توقع کی جارہی تھی، گو کہ یہ شرح خاصی کم ہے، تاہم اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
محمد عثمان طارق نے اس اہم سوال پر بھی روشنی ڈالی کہ جب مختلف شعبے مصنوعی ذہانت پر انحصار کرنے جارہے ہیں، تو ایسے میں مصنوعی ذہانت سے ہونے والی کوئی غلطی یا غلط فیصلے کا ذمہ دار کون ہوگا اور اسے کیسے درست کیا جاسکے گا۔
انہوں نے کہا کہ مصنوعی ذہانت کو بڑے پیمانے پر استعمال کیے جانے کے باجود اب بھی حتمی فیصلہ انسانی ذہانت ہی کرتی ہے۔
عثمان طارق کے مطابق جیسے جیسے اس کا استعمال بڑھتا جائے گا، ویسے ویسے اس بات کی ضرورت بھی پڑے گی کہ اس کے استعمال کے حوالے سے ضوابط اور قوانین طے کیے جائیں تاکہ اس کے نقصان کی شرح کم سے کم کی جاسکے۔