عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھا کر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔
خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ اس قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمٰن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ ’مساوات’ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لیے باری علیگ (مرحوم)اور ابو العلاء چشتی الصحافی (حاجی لق لق) بلائے گئے۔
ان دنوں میری آوارہ گردی اپنی معراج پر تھی۔ بے مقصد سارا دن گھومتا رہتا تھا۔ دماغ بے حد منتشر تھا۔ اس وقت تو میں نے محسوس نہیں کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دماغی انتشار میرے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔
جیجے کے ہوٹل (شیراز) میں قریب قریب ہر روز گپ بازی کی محفل جمتی تھی۔ بالا، انور پینٹر، عاشق فوٹو گرافر، فقیر حسین سلیس اور ایک صاحب جن کا نام میں بھول گیا ہوں، باقاعدگی کے ساتھ اس محفل میں شریک ہوتے تھے۔ ہرقسم کے موضوع زیر بحث لائے جاتے تھے۔ بالا بڑا خوش گو اور بذلہ سنج نوجوان تھا، اگر وہ غیر حاضر ہوتا تو محفل سونی رہتی۔ شعر بھی کہتا تھا۔ اس کا ایک شعر ابھی تک مجھے یاد ہے۔
اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا
نوک سی چبھ گئی ہے چھالے میں
جیجے سے لے کر انور پینٹر تک سب موسیقی اور شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ وہ صاحب جن کا نام میں بھول گیا تھا کیپٹن وحید تھے۔ نیلی نیلی آنکھوں والے، لمبے تڑنگے، مضبوط جسم، آپ کا محبوب مشغلہ گوروں سے لڑنا تھا۔ چنانچہ کئی گورے ان کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ انگریزی بہت اچھی بولتے تھے اور طبلہ ماہر طبلچیوں کی طرح بجاتے تھے۔
ان دنوں جیجے کے ہوٹل میں ایک شاعر اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ قریب قریب ہر محفل میں اس کے اشعار پڑھے یا گائے جاتے تھے۔ جیجا (عزیز) عام طور پر ‘میں اپنے عشق میں سب کچھ تباہ کرلوں گا’ ( بہت ممکن ہے کہ یہ مصرع غلط ہو) گایا کرتا تھا۔ یہ نئے قسم کا جذبہ سب کے ذہن پرمسلط ہوگیا تھا۔ معشوق کو جو دھمکی دی گئی تھی، سب کو بہت پسند آئی تھی۔
جیجا تو اختر شیرانی کا دیوانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پاس کھڑا گاہک سے بل وصول کر رہا ہے اور گنگنا رہا ہے، ‘اے عشق کہیں لے چل…’ مسافروں کو کمرے دکھا رہا ہے اور زیر لب گا رہا ہے، ‘کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات۔’
اختر صاحب غالباً دس دن امرتسر میں رہے۔ اس دوران میں جیجے کے پیہم اصرار پر آپ نے شیراز ہوٹل پر ایک نظم کہی۔ جیجے نے اسے باری صاحب کی وساطت سے بڑے کاغذ پر خوشخط لکھوایا اور فریم میں جڑوا کر اپنے ہوٹل کی زینت بنایا۔ وہ بہت خوش تھا کیوں کہ نظم میں اس کا نام موجود تھا۔ اختر صاحب چلے گئے تو جیجے کے ہوٹل کی رونق غائب ہوگئی۔
کچھ عرصے کے بعد میں بمبئی چلا گیا۔ اختر صاحب سے اتنے مراسم نہیں تھے کہ خط و کتابت ہوتی۔ لیکن جب انہوں نے رسالہ’رومان’ جاری کیا تو میں نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا۔ اب میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔
کئی برس گزر گئے۔ ملک کی سیاست نے کئی رنگ بدلے حتیٰ کہ بٹوارہ آن پہنچا۔ اس سے پہلے جو ہلڑ مچا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اس دوران میں اخباروں میں خبر چھپی کہ اختر صاحب ٹونک سے پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں بلوائیوں نے ان کو شہید کر دیا، بہت افسوس ہوا۔
میں عصمت اور شاہد لطیف دیر تک ان کی باتیں کرتے اور افسوس کرتے رہے۔ کئی اخباروں میں ان کی موت پر مضامین شائع ہوئے۔ ان کی پرانی نظمیں چھپیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی موت کی اس خبر کی تردید ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ وہ بخیر و عافیت لاہور پہنچ گئے۔ اس سے بمبئی کے ادبی حلقے کو بہت خوشی ہوئی۔
(اقتباسات، ماخوذ گنجے فرشتے از سعادت حسن منٹو)