اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ تفتیشی افسر محبوب عالم ںے وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور قومی احتساب بیورو (نیب) کو لکھے گئے خطوط کی نقول عدالت میں پیش کیں۔
تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف لاہور سے اسلام آباد پہنچے۔
سماعت میں تفتیشی افسر محبوب عالم نے عدالتی حکم پر ایف آئی اے اور نیب کو لکھے گئے خطوط کی نقول عدالت میں پیش کیں۔
نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر پر دوبارہ جرح کا سلسلہ شروع کیا۔۔
تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے سے متعلق مجھے خط کے ذریعے آگاہ کیا گیا۔ ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے کی اصل کاپی ریفرنس کا حصہ نہیں بنائی، ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے سے متعلق خط لکھنے والے افسر کا بیان بھی ریکارڈ نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ ریفرنس سپریم کورٹ کے حکم پر 6 ہفتے میں دائر کرنا تھا، سپریم کورٹ اور نیب کی ہدایت کے مطابق ریفرنس دائر نہ کرنے کا آپشن نہیں تھا۔
خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ جے آئی ٹی کی مصدقہ نقول کے لیے کب درخواست دی، تفتیشی افسر نے کہا کہ ہم نے پراسیکیوشن ڈویژن نیب ہیڈ کوارٹر میں درخواست دی۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا رپورٹ کی تصدیق کرنے والے کا نام لکھا ہوا تھا، جس پر نیب کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ یہ سوال تفتیشی افسر سے نہیں پوچھا جا سکتا۔
تفتیشی افسر نے نیب پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ کو لکھے خط کی کاپی پیش کردی۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا خط میں جے آئی ٹی رپورٹ کا ذکر ہے؟ تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ ہم نے متعلقہ مواد کا لکھا، جے آئی ٹی رپورٹ کا خصوصی ذکر نہیں کیا۔ تمام ریکارڈ کی مصدقہ نقول کے لیے ایک ہی خط لکھا تھا، غیر تصدیق شدہ کاپیاں تفتیش کا عمل جاری رکھنے کے لیے مانگی تھیں۔
سماعت کے دوران خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر اکرم قریشی کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آپ نے کل ایف آئی اے اور نیب کو خطوط سے متعلق جھوٹ بولا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جھوٹ آپ کے مؤکل بولتے ہیں جھوٹے وہ ہیں۔ ’پورا ملک لوٹ کر کھا گئے ہیں یہاں آ کر کہتے ہیں ہم معصوم ہیں‘۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ کیا یہاں سیاست کرنے آئے ہیں؟ آپ فیصلے سے پہلے فیصلہ سنا رہے ہیں کہ ہم جھوٹے اور چور ہیں۔ ہم آپ کے خلاف درخواست دے سکتے ہیں۔
اکرم قریشی نے کہا کہ درخواست میں آپ کےخلاف بھی دوں گا، کل آپ کی معاون نے مجھے گیٹ آؤٹ بولا۔ عائشہ حامد کے والد میرے کلاس فیلو رہے اس لیے انہیں بچی بولا تھا۔
جج نے کہا کہ کل عائشہ حامد تھوڑا زیادہ غصہ کر گئیں، بہتر ہوگا استغاثہ اور دفاع آپس میں بات نہ کیا کریں۔ میں یہاں بیٹھا ہوں بات مجھ سے کیا کریں۔
جرح دوبارہ شروع ہونے پر تفتیشی افسر نے کہا کہ میں کوئی ایسا خط نہیں دکھا سکتا جس پر میرے دستخط ہوں، خطوط کے مسودے تیار کر کے ان پر متعلقہ حکام سے دستخط لیتا تھا۔ نیب ایس او پی کے مطابق ایسے ہی کام کرتے ہیں۔
وکیل نیب نے کہا کہ وکیل صفائی کو کوئی ریکارڈ چاہیئے تو درخواست دیں، ایسا نہیں ہو سکتا یہ جو بھی کہیں ہم پیش کرتے جائیں۔
خواجہ حارث نے عدالت سے استدعا کی کہ نیب نے جو یاد دہانی کے خطوط لکھے وہ پیش کرنے کا حکم دیا جائے۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ درخواست پر بحث کے بعد فیصلہ کیا جائے۔
جج نے کہا کہ تفتیشی افسر اپنے بیان میں کہہ چکے ہیں کہ وہ عدالتی حکم پر خطوط پیش کر سکتے ہیں۔ نیب کو خطوط کی رازداری پر اعتراض ہے تو جائزے کے بعد فیصلہ کریں گے۔
عدالت نے کل تفتیشی افسر کو یاد دہانی کے خطوط پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل بھی خواجہ حارث تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔
گزشتہ سماعت پر تفتیشی افسر نے کہا تھا کہ نیب نے متعلقہ اداروں کو اثاثوں سے متعلق ریکارڈ کے لیے خطوط لکھے، یہ درست ہے ایف آئی اے کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا آپ نے نیب کے حکام کو بھی ریکارڈ فراہمی کے لیے خط لکھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ نیب حکام کو بھی خط لکھا مگر ہیڈ کوارٹر سے کوئی جواب نہیں ملا۔
خواجہ حارث نے پوچھا کہ کیا ایف آئی اے اور نیب ہیڈ کوارٹر کو خطوط کی کاپیاں ہیں؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ خطوط کی کاپیاں میرے پاس نہیں عدالت کہے تو پیش کر سکتا ہوں۔
عدالت نے انہیں ہدایت کی تھی کہ دونوں خطوط کی 2، 2 کاپیاں پیش کریں۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ایسا تو نہیں ایف آئی اے نے اطلاع دی ہو مگر ان کے پاس ریکارڈ نہیں جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا ان کا جواب ہی نہیں آیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کیا ایف آئی اے اور نیب نے کہا کہ ان کے پاس ریکارڈ نہیں؟ تفتیشی افسر نے کہا کہ جب جواب ہی نہیں آیا تو یہ بات کیسے کہہ سکتا ہوں،۔ تفتیشی رپورٹ میں صفحہ 8 کے پیراگراف 6 پر یہ بات لکھی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ کیا آپ نے ایف آئی اے کو یاد دہانی کا خط لکھا تھا؟ جس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ایف آئی اے کو یاد دہانی کا کوئی خط نہیں لکھا۔ نیب ہیڈ کوارٹر کو بھی یاد دہانی کے لیے خط نہیں لکھا۔