خطیب بغدادیؒ کی مشہور تصنیف تاریخِ بغداد ہے جسے بالخصوص اسلامی دنیا میں ایک وقیع اور مستند کتاب سمجھا جاتا ہے۔ غیرمسلم تاریخ داں اور مستشرقین بھی اسے معتبر خیال کرتے ہیں۔
امام ابوبکر خطیب بغدادیؒ ایک جیّد عالم، مؤرخ اور کئی کتب کے مصنّف تھے۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ خطیب بغدادی کی کتاب کے بارے میں علاّمہ ابنِ خلکان جیسی جیّد ہستی نے لکھا ہے کہ امام صاحب کی مزید تصانیف نہ بھی ہوتیں تو فقط یہی کتاب ان کے فضل و کمال کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھی۔ ان کے علاوہ بھی اپنے وقت کے دیگر مشاہیر نے خطیب بغدادی کے علمی اور دینی علوم پر دسترس اور ان کے علم و فضل کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعریف کی ہے۔
اسلامی تاریخ پر مبنی کتب میں نام احمد، کنیت ابوبکر اور لقب خطیب درج ہے۔ خطیب بغدادی 1002ء میں عراق کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ یہ گاؤں بغداد کے قریب اور دریائے دجلہ کے کنارے پر آباد تھا، لیکن تحصیل علم اور تدریس و تصنیف کی غرض سے زندگی کا بڑا حصّہ اس زمانے کے علم و فنون کے مرکز بغداد میں گزارا۔ اسی شہر کی نسبت وہ بغدادی مشہور ہوئے۔ ان کے والد ایک خطیب تھے اور مؤرخین کا خیال ہے کہ انہی کی وجہ سے یہ لفظ بھی امام ابوبکر کے کے نام کا جزو بن گیا۔
امام خطیب بغدادیؒ نے اپنے والدِ ماجد کی ترغیب و تشویق سے تحصیلِ علم کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے دستور کے مطابق قرآن و حدیث اور فقہ کی تعلیم مکمل کی اور اپنے زمانے کے علما و آئمہ سے کسبِ فیض کیا، اس کے بعد بصرہ، کوفہ، نیشا پور، ہمدان، مکہ و مدینہ اور دمشق سے تعلیم حاصل کی اور علم و فضل میں ایسے ممتاز ہوئے کہ خود ان کے کئی شاگرد علم دین و دنیا میں مشہور ہیں۔ وہ حفظ و ثقاہت میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔ ان کے علمی مقام و مرتبے اور قدر و منزلت کو کئی نام ور ہستیوں اور مشہور علما نے تحریر و تقریر میں بیان کیا۔ ایک صاحبِ علم کے مطابق ’’امام دار قطنی کے بعد بغداد میں خطیب بغدادی کی مثل کوئی نہیں آیا۔‘‘ اسی طرح ابو علی بردانی فرماتے ہیں، ’’شاید خطیب نے بھی اپنے جیسا صاحبِ فن نہ دیکھا ہو۔‘‘ مشہور فقیہ ابو اسحاق شیرازی لکھتے ہیں، وہ معرفتِ حدیث اور حفظِ حدیث میں امام دار قطنی اور ان کے ہم مرتبہ لوگوں کے برابر تھے۔ مؤرخین نے ابو اسحاق شیرازی کو خطیب کے اساتذہ میں شمار کیا ہے جو اپنے اس شاگرد کے نہایت مداح و معترف تھے۔
خطیب بغدادیؒ کی حدیث میں عظمت و بلند پائیگی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ وہ جرح و تعدیل کے فن میں یکتا اور روایت و احادیث کی شناخت و تمیز میں ماہر تھے۔ حدیثِ رجال، جرح و تعدیل اور اصول اسناد و روایات میں ان کی کئی تصانیف موجود ہیں۔ حدیث کے متعلقہ علوم میں شاید ہی کوئی ایسا فن ہو جس میں انھوں نے کتاب نہ لکھی ہو۔ خطیب بغدادی کو حدیث میں ان کے علم و کمال کی وجہ سے کئی القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ امام ذہبی نے انھیں الحافظُ الکبیر، الامام، محدث الشّام و العراق کے القابات سے یاد کیا۔ علّامہ ابنِ کثیر نے انھیں مشاہیرِ محدثین میں شمار کیا اور اسی طرح دیگر علما و فقہا نے ان کی تصنیفات کو بیش قیمت اور پُر منفعت قرار دیا ہے۔
حدیث کے علاوہ تذکرہ و تراجم اور تاریخ بهی امام صاحب کا خاص موضوع تھا۔ ان کی کتابوں کا مطالعہ کرنے والے سوانح نگاروں نے انھیں بلند قرار دیا ہے۔ خطیب بغدادی حدیث و تاریخ اور فقہ میں ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر علوم یعنی فنِ قرأت و تجوید، علومِ قرآنی اور شعر و ادب میں بھی کمال رکھتے تھے۔ حافظ ابنِ کثیر نے اپنی مشہور تصنیف ’’البدایہ و النہایہ‘‘ میں ان کی بابت لکھا، ’’خطیب اچھی قرأت، فصیح ادائیگیِ الفاظ کے ساتھ ادب کو جاننے والے تھے اور شعر بھی کہتے تھے۔‘‘ خطیب بغدادی خطّاط اور خوش نویس بھی تھے۔
ان کی تصانیف کی تعداد 100 کے قریب بتائی جاتی ہے جن میں اکثر کتابیں فنون حدیث کے متعلق گونا گوں مسائل و مباحث اور مفید معلومات پر مشتمل ہیں۔ صرف تاریخِ بغداد کی بات کی جائے تو اس کتاب سے امام صاحب کے علمی تبحر، وسعتِ مطالعہ اور دقتِ نظر کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ مصنّف اپنی اس کتاب کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ یہ مدینۃُ السّلام یعنی بغداد کی تاریخ ہے، اس میں اس کی آبادی و تعمیر کا اور یہاں کے مشاہر علما، فقہا و محدثین، اشراف اور اربابِ شعر و ادب کا تذکرہ کیا ہے۔
خطیب بغدادی 5 ستمبر 1071ء میں اس دارِ فانی سے رخصت ہوئے۔ ان کی آرزو تھی کہ وہ بابِ حرب میں بشر حافی کی قبر کے پہلو میں دفن ہوسکیں اور ان کی اس خواہش کا احترام کیا گیا۔