بدھ, فروری 5, 2025
اشتہار

سکندرِ اعظم کا تذکرہ جو اپنے سپاہیوں کے اصرار پر مقدونیہ لوٹنے پر مجبور ہوگیا

اشتہار

حیرت انگیز

سکندر کا ذکر لوک داستانوں اور دیو مالائی قصّوں میں ہوتا ہے۔ اس کا نام فتح و نصرت، شان و شوکت کے استعارے کے طور پر لیا جاتا ہے اور تاریخِ عالم میں سلطنت اور اقتدار سے متعلق کوئی باب اس کے اس کے ذکر سے خالی نہیں، مگر اس عالمِ‌ ناپائیدار اور حقیقتِ ہنگامۂ حیات کو سمجھنا ہو تو یہ شعر ملاحظہ کیجیے جس کا موضوع یہی سکندر اور اس کی جاہ و حشمت ہے:

مہیا گرچہ سب اسبابِ ملکی اور مالی تھے
سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے

مؤرخین لکھتے ہیں کہ بچپن سے ہی سکندر جسمانی خوشیوں کا طبعاً شائق نہ تھا۔ اسے دولت و سامان سے نفرت تھی اوربہ مشکل ان کی طرف مائل ہوتا تھا۔ ہاں وہ شہرت اور نام وری ضرور چاہتا تھا اور وہ اس کا مقدر بنی اور اس طرح کہ صدیاں بیت گئیں، مگر سکندر کو دنیا فراموش نہیں کرسکی۔ اسے سکندرِ اعظم پکارا جاتا ہے جو آدھی دنیا کا فاتح تھا۔

وہ مقدونیہ کے بادشاہ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مقدونیہ کے اس بادشاہ کا نام فلپ تھا جس کی بیوی اولمپیا کی کوکھ سے سکندر نے جنم لیا۔ اس عورت سے فلپ کی کبھی نہیں بنی۔ اولمپیا کے بارے میں محققین لکھتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی مخالفت ہی کرتی رہی اور یہاں تک کہ فلپ دوم کو 336 (ق۔م) میں قتل کر دیا گیا۔ باپ کے بعد جب سکندرِ اعظم تخت پر بیٹھا تو اس کی عمر محض بیس سال تھی۔ جب سکندرِ اعظم نے عنانِ اقتدار سنبھالا تب، مقدونیہ ایک غیر مؤثر ریاست کے طور پر جانی جاتی تھی۔ یونان میں ایتھنز، سپارٹا اور دوسری بڑی قوتیں موجود تھیں‌ جو مقدونیہ سے خائف تھیں۔

ایک یونانی فلسفی اور مؤرخ پلوٹارک نے سکندر کی شخصیت کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کا رنگ تو گورا تھا لیکن چہرہ سرخی مائل تھا۔ سکندر کا قد ایک عام مقدونیائی کے مقابلے میں چھوٹا تھا لیکن میدان جنگ میں ان کے قد کا کوئی اثر نظر نہیں آتا تھا۔ سکندر داڑھی نہیں رکھتے تھے۔ اس کے رخسار پتلے تھے، جبڑا چوکور تھا اور ان کی آنکھیں شدید عزم کی عکاس تھیں۔

مارکس کرٹیئس نے سکندر پر کتاب ‘ہسٹری آف الیگزینڈر’ میں لکھا ہے کہ ‘سکندر کے بال سنہرے اور گھنگریالے تھے۔ اس کی دونوں آنکھوں کا رنگ ایک دوسرے سے مختلف تھا۔ اس کی بائیں آنکھ سرمئی اور دائیں کالی تھی۔

سکندرِ اعظم 356 قبلِ مسیح میں پیدا ہوا اور محققین کے مطابق 10 جون 323 میں وہ ملیریا کے شدید حملے کے بعد اپنے حواس کھو بیٹھا اور اسی حالت میں مر گیا۔ بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا کہ سکندر کو زہر دیا گیا تھا۔ بہرحال، سکندر نے محض 33 برس کی عمر میں کئی فتوحات اپنے نام کیں اور بہت سارے علاقوں پر اپنی حکومت قائم کرلی۔ مگر اس کے اکثر مفتوحہ علاقوں میں کچھ وقت کے بعد شورش بھی جنم لیتی رہی اور بغاوت کے بعد وہ اس کے ہاتھ سے نکل جاتے۔ یہی سکندرِ‌اعظم ہندوستان بھی آیا اور یہاں پنجاب اور سندھ میں بھی خیمہ زن ہوا۔ تاریخ کے اوراق بتاتے ہیں کہ سکندر کو سندھ میں بھی کچھ ایسے سخت حالات سے نمٹنا پڑا جب اسے سرکشی اور بغاوت کا سامنا تھا۔

23 سال کی عمر میں سکندر نے 334 قبلِ مسیح میں یونان کے شہر مقدونیہ سے نکل کر دنیا کو فتح کرنے کی مہم شروع کی تھی۔ اس نے اپنے خطّے میں فتوحات کے بعد دوسری بادشاہتوں کو مٹاتے ہوئے ہندوستان کا رخ کیا۔ سکندر کی فوج میں ایک لاکھ سپاہی تھے جو دس ہزار میل کا سفر طے کر کے ایران کے راستے دریائے سندھ کے کنارے پہنچے۔ 326 قبل مسیح کے اوائل میں، جب سکندر ایران میں تھا تو ایران کے نزدیک ہندوستانی شہروں کی بادشاہتوں کے پاس قاصد روانہ کیے کہ وہ اس کے مطیع ہوجائیں۔ سکندر جیسے ہی کابل کی وادی میں پہنچے، بادشاہ اس سے ملنے پہنچنے لگے۔ ان میں سے ایک ہندوستانی شہر تکشلا (ٹیکسلا) کا حکمران امبھی بھی تھا۔ اس نے سکندر کے ساتھ اپنی وفاداری ظاہر کرنے کے لیے 65 ہاتھی اور کچھ سپاہی پیش کیے تاکہ وہ یہاں اپنی فتوحات جاری رکھ سکے۔ تکشلا کا بادشادہ امبھی دراصل یہ چاہتا تھا کہ سکندر اس کے دشمن پورس کے خلاف جنگ میں اس کا ساتھ دے۔

سکندر ہندوکش کے راستے 326 قبلِ مسیح میں ’اوھند‘ کی جگہ سے دریائے سندھ کو پار کرکے ٹیکسلا پہنچا تھا جہاں کے بادشاہ سے مدد پانے کے بعد وہ جہلم پار کر کے پورس کے ساتھ جنگ میں کام یاب ہوا مگر پورس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو اس کے وقار اور دبدبے میں اضافہ کرتا ہے۔ وہ پورس کو اپنا دوست کہنے لگا اور اس کی حکومت اسے سونپ دی۔

سکندر کے سوانح نگار پلوٹارک لکھتے ہیں کہ ‘جب تک پورس لڑنے کی پوزیشن میں تھا اس نے سکندر کا زبردست مقابلہ کیا۔’ سکندر اس سے بہت متاثر ہوا اور یہ جنگ جیت کر بھی پورس کو اس کی حکومت دے کر چلا گیا۔

مؤرخین کے مطابق سکندر کو اپنی فوج اور اپنے اہم لوگوں کی جانب سے کچھ دباؤ اور اختلافات کا سامنا کرنا پڑا اور سکندرِ اعظم جو اس سے آگے گنگا کے ساحل تک جانا چاہتا تھا سپاہیوں کے پس و پیش کو دیکھ کر اپنے ارادے سے پیچھے ہٹنے پر مجبور ہونے لگا۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ ایک سپاہی نے فوج کے خیالات سکندر کے گوش گزار کیے اور کہا کہ اب ہم تھک چکے ہیں اور ہماری ہمت جواب دی چکی ہے، بہتر ہے کہ ہم واپس میسیڈونیا جائیں۔ اس کے بعد آپ ایک بار پھر نئی نسل کے ساتھ ایک اور مہم پر نکل جائیں۔ جہاں تک ہمارا تعلق ہے تو ہم اب اس سے آگے نہیں جا سکتے۔

سکندر کو یہ بات پسند نہیں آئی اور وہ غصے سے اٹھ کر اپنے خیمے میں چلا گیا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ سکندر سمجھتا تھا کہ اس کی فوج کے بڑے کسی وقت اس کے پاس آکر معافی مانگ لیں گے اور اپنی بات پر نادم ہوں گے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ آخر کار سکندر کو مزید آگے بڑھنے اور جنگیں لڑنے کے ارادے سے باز آیا اور یہ اعلان کیا کہ وہ مقدونیہ واپس جارہے ہیں۔دوسری طرف اس کے مفتوحہ علاقوں میں بغاوت بھی پھوٹ پڑی تھی اور وہ بادشاہ جو اب سکندر کو اپنا حاکم مان چکے تھے، اس کے آگے بڑھنے کے بعد باغی ہو جاتے تھے۔ اس سے سکندر بہت پریشان ہوگیا تھا۔

بعض مؤرخین کے مطابق سکندر کی آخری منزل ’مگدھ‘ کی بادشاہی اور اُس سے آگے مشرقی سمندر تھا۔ مگر وہ اپنا خواب پورا نہ کر سکا۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں