دنیا کی مشہور اور مقبول ترین کہانیوں کی کتابوں میں ایک ‘الف لیلہ’ بھی ہے جسے رتن ناتھ سرشار نے اردو زبان میں ڈھالا اور یہ ان کا شاہکار ترجمہ ہے۔ تاہم وہ عربی سے الف لیلہ کی ایک جلد کو فصیح و بلیغ اردو میں ترجمہ کر سکے تھے اور ان کے بعد مولوی محمد اسمٰعیل و دیگر نے اسے مکمل کیا۔
اردو ہی نہیں اس کتاب کا مغربی اور یورپی زبانوں میں بھی ترجمہ کیا گیا اور یوں عرب ثقافت اور کئی لوک کہانیاں دنیا کے سامنے آئیں۔ الف لیلہ کو کب، کس ملک میں لکھا گیا اور اس کا مصنّف کون ہے، اس بارے میں محققین کی آراء مختلف ہوسکتی ہیں، لیکن خیال ہے کہ یہ مقبول کہانیاں عرب دنیا کے قصّہ گو سنایا کرتے تھے جسے بعد میں کسی ایک یا کئی مصنّفین نے تحریری شکل دے دی۔ کسی زمانے میں یہ نہایت دل چسپ اور پُرتجسس قصّے ایران، مصر اور قسطنطنیہ تک پہنچ گئے اور وہاں کے قصہ گو اور لکھاریوں نے اس میں مزید واقعات شامل کردیے۔ بعد میں جب یہ کہانیاں ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل گئیں تو اس کا نام ’الف لیلۃ و لیلۃ‘ یعنی ’ایک ہزار ایک راتیں‘ ہو گیا۔
الف لیلہ میں شامل ان کہانیوں کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب ایک بادشاہ پر یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اس کی بیوی یعنی ملکہ نے اس سے بے وفائی کی ہے۔ وہ عورتوں سے بدظن ہوجاتا ہے اور عورتوں کو اپنے نکاح میں لے کر قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔ یہ ملک سمرقند اور بادشاہ شہریار ہے جس نے یہ دستور بنا لیا کہ روزانہ ایک نئی عورت سے شادی کرتا اور رات کو دلہن کے ساتھ وقت گزار کر صبح قتل کرا دیتا۔ آخر اس کے ایک وزیر کی لڑکی شہرزاد نے عورتوں کو اس عذاب سے نجات دلانے کی ٹھان کر شہریار سے شادی کرتی ہے اور شادی کے بعد بادشاہ کو پہلی رات اپنے منصوبے کے مطابق ایک کہانی سناتی ہے۔ پہلی رات ختم ہوجاتی ہے، مگر کہانی ایک ایسے موڑ پر تھی کہ بادشاہ شہر زاد کو قتل کرنے سے باز رہتا ہے۔ اگلی رات بھی بادشاہ کی نئی بیوی یعنی شہر زاد کہانی شروع کرتی ہے اور صبح تک وہ کہانی ایک ایسے موڑ پر آجاتی ہے جس میں بادشاہ کا تجسس اور اس کی دل چسپی عروج پر پہنچ جاتی ہے اور بادشاہ کہانی کا انجام جاننے کے لیے اس صبح بھی ملکہ کے قتل سے باز رہتا ہے۔ اسی طرح اگلی رات اور پھر ہر رات کہانی اسی طرح بادشاہ کی توجہ اور دل چسپی بڑھاتی چلی جاتی ہے اور وہ شہرزاد کو قتل نہیں کرتا۔
شہر زاد کے قصّے کا یہ سلسلہ ایک ہزار ایک راتوں پر پھیل جاتا ہے۔ اس دوران بادشاہ اور شہر زاد کے تعلقات میں تبدیلی آتی گئی اور ان کے ہاں دو بچّے ہو گئے اور بادشاہ کی بدظنی جاتی رہی۔
بعض محققین کا خیال ہے کہ عرب مؤرخ محمد بن اسحاق نے کتاب الفہرست میں کہانیوں کی جس کتاب کا ذکر ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے کیا ہے وہ دراصل الف لیلہ ہی ہے اور اس میں بطور نمونہ اسی کی پہلی کہانی شامل کی ہے۔ یوں یہ کہا جانے لگا کہ الف لیلہ پہلے ’ہزار افسانہ‘ کے نام سے موجود تھی۔
اردو میں رتن ناتھ سرشار نے اس مقبول کتاب کی صرف پہلی جلد پر کام کیا تھا جب کہ 1690ء میں اس کتاب کا مخطوطہ بازیافت ہوا تو یورپ میں سب سے پہلے ایک فرانسیسی ادیب آنتون گلاں نے اس کا فرانسیسی ترجمہ شائع کیا اور کہتے ہیں کہ اسی ترجمہ کی بنیاد پر اردو سمیت کم و بیش دوسری زبانوں میں الف لیلہ کے تراجم کیے گئے۔