اتوار, اکتوبر 6, 2024
اشتہار

الفاظ اور شاعر

اشتہار

حیرت انگیز

صرف ادبیوں اور شاعروں کے یہ دو ایسے طبقے ہیں جن سے الفاظ کی رسم و راہ ہے۔ ادیبوں سے ہر چند اُن کی ملاقات دوستانہ ہوتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے گھر آیا جایا کرتے ہیں لیکن بعض نازک مزاج، اسرار پسند اور نغمہ پرور اونچے گھرانوں کے الفاظ ان سے کُھل کھیلنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اگر ادیبوں کے سامنے آتے بھی وہ ہیں تو اُن شوخ لڑکیوں کی طرح جو دور سے تو لگاوٹ دکھاتی ہیں لیکن جب اُن کا دامن پکڑنے لپکو تو قہقہے مارتی ہوئی الٹے پاؤں بھاگ جاتی ہیں۔

البتہ شاعروں کے ساتھ اُن کا برتاؤ دوستوں ہی کا سا نہیں، قرابت داروں کا سا ہوتا ہے۔ وہ شاعروں سے اس طرح ملتے جلتے ہیں جیسے ایک ہی گھر کے مختلف افراد یا ساتھ کے کھیلے ہوئے لنگوٹیا یار۔ شاعروں کو یہاں تک اختیار دے رکھا ہے کہ وہ جب چاہیں اُن کے لباس تبدیل کر دیں۔ اُن کی لَے اور رنگ بدل دیں، اُن کا رخ موڑ دیں۔ اُن کے معنوں میں تنگی یا وسعت پیدا کر دیں۔ اُن کے خط و خال میں کمی بیشی فرما دیں۔ شاعر کا مکان الفاظ کی عبادت گاہ ہے۔ جہاں ادنیٰ و اعلیٰ ہر قسم کے الفاظ ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور صفوں میں ایسی شایستگی ہوتی ہے جیسی راگنی کے بولوں میں ہم آہنگی۔

؎ ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہوں گے
مومن خاں مومنؔ

- Advertisement -

لفظ ” بس“ میں شاعر نے اس قدر شدت پیدا کر دی کہ لغت حیران ہو کر رہ گئی ہے۔

؎ سخت کافر تھا جس نے پہلے میرؔ
مذہبِ عشق اختیار کیا

ایک شرعی لفظ کو لغت سے اس طرح ہٹا کر استعمال کیا ہے کہ لغت کا سَر چکرا کر رہ گیا اور اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہا ہے۔

(از قلم: جوشؔ ملیح آبادی)

Comments

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں