علی عباس جلال پوری اردو کے ممتاز ادیب، مفکر اور دانش وَر تھے۔ فلسفہ ان کا بنیادی وظیفہ تھا اور اس کے ذریعے وہ فطرت اور اس کے دامن میں بسے ہر ذی روح اور اشیاء کے وجود اور رمز کو کھولنے کی کوشش کرتے رہے ان کا ذہن نئے نئے سوالات کو جنم دیتا اور وہ اس کا جواب اپنی عقل اور علم کے مطابق تلاش کرتے۔ علی عباس جلال پوری کے افکار اور ان کی تصانیف پر تنازع بھی رہا۔
فلسفے میں ایم اے کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے لینے والے علی عباس جلال پوری نے اردو اور فارسی میں بھی ایم اے کی سند افتخار حاصل کی تھی اور تدریس سے وابستہ رہے۔علی عباس جلال پوری کی مشہور کتابوں میں ’روح عصر‘ روایات فلسفہ، تمام فکری، مغالطے، کائنات اور انسان، روایات تمدن قدیم، جینیاتی مطالعے کے علاوہ مقالاتِ جلال پوری اور خرد نامۂ جلال پوری شامل ہیں۔ 7 دسمبر 1997ء کو علی عباس جلال پوری وفات پا گئے تھے۔
سید علی عباس جلال پوری سے ممتاز انشائیہ نگار، ادیب اور شاعر ڈاکٹر وزیر آغا کا رابطہ و تعلق زندگی بھر قائم رہا۔ ان کے مابین علمی و ادبی موضوعات پر گفتگو ہوتی رہتی تھی اور اکثر خطوط کا تبادلہ بھی کرتے تھے۔ ایسا ہی ایک خط ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔
سید علی عباس جلال پوری کا خط بنام ڈاکٹر وزیر آغا
آپ کا خط ملا۔ میں سکون و فراغت کی تلاش میں گاؤں جا رہا ہوں، اب لاہور میں میرے لئے کشش کا کوئی سامان نہیں رہا، ذہنی فکری لحاظ سے یہ شہر بانجھ ہو چکا ہے، قیل و قال کی مجالس تو بہت ہیں لیکن صاحب بصیرت اور اربابِ فکر کا فقدان محسوس ہوتا ہے۔ مشاعروں اور کم سواد عطائیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے، ایک دوسرے کی تعریفیں کر کے اپنا اپنا ’امیج‘ بنانے کی فکر میں ہیں اور تھوڑی بہت Recognition کم نظروں سے مل جاتی ہے تو اس ’امیج‘ کو ریڈیو، ٹیلی ویژن پر بیچنا شروع کر دیتے ہیں۔ مطالعے اور تفکر سے عاری محض ہیں اور ہر شخص کو اپنی ہی سطح پر کھینچ لانا چاہتے ہیں۔
یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ نے اقبالؒ کی کتاب لکھی ہے۔ اس کا موضوع تو بتایا ہی نہیں۔ مجھے بھی کہلوایا گیا تھا کہ اقبالؒ پر کوئی کتاب لکھوں لیکن میں نے انکار کردیا۔ اقبالؒ کی فکر کے بارے میں جو کچھ مجھے کہنا تھا وہ میں نے اقبالؒ کے علم الکلام میں کہہ دیا ہے۔ رہی اس کی شاعرانہ عظمت تو اس کے بارے میں بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے لیکن مجھے فرصت نہیں ہے۔ اب پنجابی کتاب کا موضوع ’پنجابی کے صوفی شاعر اور وحدت الوجود‘ چنا گیا ہے۔ دو ایک ماہ میں چھپ گئی تو آپ کو بھیجوں گا۔ اس میں میں نے اپنی ماں بولی کا قرض اتارنے کی کوشش کی ہے۔
’اردو زبان‘ کے تازہ شمارے میں محمد احسن فاروقی کا مضمون ’ادب اور تحریک‘ نظر سے گزرا۔ اس میں فرماتے ہیں کہ ’’بقراط کا یہ خیال تھا کہ کائنات تمام حرکت میں ہے‘‘ ان صاحب کو معلوم نہیں کہ بقراط طبیب تھا فلسفی نہیں (اصل میں ہیپاکریٹس)۔ اسے طب یونان کا باوا آدم مانا گیا ہے۔ فلاسفہ میں اس کا شمار نہیں ہوتا۔ یہ خیال کہ تمام کائنات حرکت میں ہے، ہیرا کلیٹس کا ہے۔ میں شاید چھ ماہ (یا برس بھر) یہاں قیام کروں۔ میرے چھوٹے بیٹے نے بی اے فائنل کا امتحان دینا ہے اور وہ سیاسی آشوب کی وجہ سے التوا میں پڑ گیا ہے۔ اس کی فراغت تک گاؤں نہیں جا سکوں گا۔ جب آپ یہاں تشریف لائیں گے تو ملاقات کی کوئی سبیل پیدا ہو جائے گی۔
(نوٹ: یہ خط غالباً مئی 1977ء میں لکھا گیا تھا)