جمعرات, جنوری 23, 2025
اشتہار

بھارت میں علی گڑھ جامع مسجد کو بھی ہندو قلعہ قرار دینے کا مطالبہ

اشتہار

حیرت انگیز

نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت میں اقلیتوں کی عبادت گاہوں پر قبضے کرنے کا سلسلہ جاری ہے، انتہاء پسند ہندوؤں کی جانب سے جامع مسجد دہلی پر دعوے کے بعد اب علی گڑھ جامع مسجد کو ہندو قلعہ قرار دینے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق سپریم کورٹ نے ملک میں کسی بھی مذہبی مقام کی حیثیت تبدیل کرنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت پر پابندی لگائی ہوئی ہے، اس کے باوجود سنبھل کے بعد علی گڑھ کی جامع مسجد کا معاملہ بھی عدالت میں پہنچ گیا ہے۔

رپورٹس کے مطابق علی گڑھ کی یہ جامع مسجد مغل شہنشاہ محمد شاہ (1719-1728) کے دور میں 1724 میں گورنر ثابت خان نے تعمیر کروانا شروع کی تھی۔ مسجد کی تعمیر مکمل ہونے میں چار سال کا عرصہ لگا اور یہ مسجد 1728 میں مکمل ہوئی۔

- Advertisement -

علی گڑھ کی ضلع عدالت میں آر ٹی آئی ایکٹوسٹ کیشو دیو گوتم نے ایک درخواست دائر کی ہے، جس میں مسجد کو ہندو قلعہ قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا ہے کہ مسجد کے پاس موجود ستون پر ‘اوم’ کا نشان موجود ہے۔

عدالت میں دائر کی گئی درخواست میں کہا گیا ہے کہ آر ٹی آئی کے ذریعے حاصل معلومات کے مطابق جامع مسجد کو آثار قدیمہ سروے آف انڈیا (اے ایس آئی) کے ریکارڈ میں جائیداد کے طور پر درج نہیں کیا گیا۔

دائر درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ قلعہ اے ایس آئی کی طرف سے نوٹیفائیڈ ہے اور اس کی باقیات بدھ اسٹوپ یا مندر سے مماثلت رکھتی ہیں۔

درخواست گزار کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ یہ مسجد دراصل ہندوؤں کا بالائی قلعہ تھی جس پر مبینہ طور پر ناجائز قبضہ کر کے اسے مسجد بنادیا گیا تھا، نیز یہ کہ مسجد کے اطراف موجود دکانوں اور مکانات کا کرایہ وصول کر کے سرکاری جائیداد کا ناجائز استعمال ہورہا ہے، درخواست میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر قبضہ ختم کر کے اس مقام کو سرکاری کنٹرول میں لے اور اسے ہندو ’تیرتھ استھل‘ قرار دے۔

عدالت نے مرکزی حکومت کو چار ہفتوں کے اندر اس حوالے سے اپنا موقف واضح کرنے کی ہدایت دی ہے، اور اس معاملے کی اگلی سماعت 17 فروری 2025 رکھی گئی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھارت میں ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے ہندوستانی محکمہ آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر جنرل کو خط لکھ کر جامع مسجد دہلی کے سروے کا مطالبہ کیا تھا۔

ہندو سینا نے دعویٰ کیا تھا کہ اورنگ زیب نے جودھ پور اور ادے پور کے کرشنا مندروں کو گرا کر مورتیاں دہلی کی جامع مسجد دہلی کے قدموں میں دفن کر دی تھیں۔

جامع مسجد میں مورتیوں کے باقیات موجود ہیں۔ اس کا ثبوت اورنگ زیب پر لکھی گئی کتاب ”مسیر عالمگیری“ اورنگ زیب نامہ میں موجود ہے جس کو ساقی مشتاق خان نے لکھا ہے۔ ان کتابوں میں اس کا ذکر موجود ہے۔

تنظیم کے مطابق یہ معاملہ (24-25 مئی 1689) کا ہے۔ اس روز خان جہاں بہادر مندروں کو تباہ کرنے کے بعد جودھ پور سے واپس آئے۔

دعویٰ کیا گیا کہ اورنگ زیب کی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ جب خان جہاں بہادر نے مندروں کو توڑا پھر بیل گاڑیوں کے ذریعے ان کی باقیات دہلی روانہ کردی گئیں، اس کے بعد اسے مسجد کے درختوں کے نیچے دفن کر دیا گیا۔

آگرہ کی جامع مسجد بھی انتہاء پسندوں کے نشانے پر، مورتی کے نشان کا دعویٰ

ہندو سینا مطالبہ کرتی ہے کہ جامع مسجد دہلی کا سروے کرایا جائے اور ان مورتیوں کو نکال کر مندروں میں دوبارہ نصب کیا جائے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں