تازہ ترین

ایرانی صدر کی مزار اقبال پر حاضری، پھول چڑھائے اور فاتحہ خوانی کی

لاہور: ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کی لاہور آمد...

پاک ایران سرحد پر باہمی رابطے مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، آرمی چیف

راولپنڈی: آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا کہنا ہے...

پی ٹی آئی دورِحکومت کی کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل سے خارج

وفاقی حکومت نے پی ٹی آئی دورِحکومت کی وفاقی...

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حکمران آزادی صحافت کے خریدار

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت کے حکمران آزادی صحافت کے بھی سب سے بڑے خریدار نکلے الجزیرہ حقائق سامنے لے آیا۔

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے حکمران آزادی صحافت کے بھی سب سے بڑے خریدار نکلے ہیں اور الجزیرہ کا آرٹیکل مودی سرکار کے آزادی صحافت اور جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے آخری وار کو زیر بحث لے آیا ہے۔

الجزیرہ کے آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ بڑے سرمایہ دار آزادی صحافت اور جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہیں۔ بھارتی صحافی رویش کمار کے این ڈی ٹی وی سے استعفے نےب ھارت میں ختم کیے جانے والے آزاد میڈیا کا ایشو اجاگر کر دیا ہے۔

آرٹیکل میں لکھا گیا ہے کہ دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص گوتم اڈانی نے مودی حکومت کیخلاف مضبوط آواز این ڈی ٹی وی کو خرید لیا۔ گوتم اڈانی نریندر مودی کا قریبی ساتھی ہے جس کی دولت میں مودی کے اقتدار کے دوران بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔

آرٹیکل میں انکشاف کیا گیا ہے کہ این ڈی ٹی وی خریدنے والے مودی کے دوست گوتم اڈانی کی دولت 2014 میں 7 ارب ڈالر تھی جو بڑھ کر اب 110 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہے اور اڈانی کے ذریعے مودی نے بھارتی میڈیا کی آخری بڑی آزاد آواز پر بھی کنٹرول حاصل کرلیا ہے۔ جس کے بعد حکمرانوں پر بے خوف تنقید سے معروف صحافی رویش کمار نے این ڈی ٹی وی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔

صحافی رویش کمار نے ہی گودی میڈیا کی اصطلاح متعارف کرائی تھی اور آرٹیکل میں اسی بے باک صحافی کا یہ بیان بھی شامل کیا گیا ہے جس میں رویش نے کہا ہے کہ جس سرمایہ دار کی کامیابی حکومتی کانٹریکٹس کے مرہون منت ہو، وہ حکومت پر کیسے تنقید کرے گا؟ میرے لیے واضح ہے میں ایسے میڈیا ادارے کو اب چھوڑ جاؤں۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ گودی میڈیا کا مطلب تمام میڈیا مودی کی گود میں ہے۔ کئی بڑے میڈیا چینلز پہلے ہی بی جے پی سے منسلک سیاسی خاندانوں کی ملکیت ہیں۔ مودی حکومت کے میڈیا پر غلبے سے آزادی اظہار پر چند سرمایہ کاروں کے کنٹرول کے سوالات نے جنم لے لیا ہے۔

آرٹیکل میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ آزاد میڈیا پر حکمرانوں، سرمایہ داروں کا کنٹرول صرف مودی حکومت ہی نہیں بلکہ یہ دنیا بھر کا مسئلہ بن چکا ہے۔ امریکا اور برطانیہ میں بھی میڈیا کا چند ارب پتیوں کے ہاتھ لگنا ماڈرن ڈیمو کریسی کے لیے خطرہ سمجھا جا رہا ہے۔

آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ اچھی صحافت کے لیے پیسہ بھی ضروری ہے مگر اسے آزادی بھی چاہیے۔

Comments

- Advertisement -