جمعرات, جون 26, 2025
اشتہار

کوٹھی کے صحن میں ‘بزمِ‌ اقبال’

اشتہار

حیرت انگیز

علّامہ اقبال کی کوٹھی پر یوں تو روز ہی کوئی ملاقاتی آیا کرتا تھا، لیکن اکثر شام کو مشاہیر اور کئی باذوق شناسا اکٹھا ہوتے تو علمی و ادبی موضوعات کے ساتھ سیاست پر بھی خوب گفتگو ہوتی اور مباحث چھیڑے جاتے۔ اقبال سب کو سنتے اور مناسب سمجھتے تو اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے۔ وہ حقّہ پیتے جاتے اور عام دل چسپی کے موضوعات بھی باتیں کرتے۔ یوں اقبال کی صحبت میں وقت گزرنے کا احساس ہی کسی کو نہ ہوتا۔

مشاہیرِ اردو ادب کی تحریریں پڑھنے کے لیے یہ لنک کھولیں
چراغ حسن حسرت جیسے انشا پرداز، شاعر اور صحافی بھی علّامہ اقبال کی شخصیت اور افکار سے بے حد متاثر تھے۔ انھوں نے اپنی ایک تحریر بعنوان بزمِ اقبال میں چند لمحے سپردِ‌ قلم کی تھی جس سے یہ سطور قارئین کی دل چسپی کے لیے نقل کی جارہی ہیں۔ چراغ حسن حسرت لکھتے ہیں:

میں نے علامہ اقبال کو جلسوں میں بھی دیکھا ہے، پارٹیوں، دعوتوں اور پنجاب کونسل کے اجلاسوں میں بھی، لیکن جب ان کا ذکر آتا ہے تو میرے تصور کے پردے پر سب سے پہلے ان کی جو تمثال ابھرتی ہے وہ ان کی نج کی صحبتوں کی تصویر ہے۔

شام کا وقت ہے، وہ کوٹھی کے صحن میں چارپائی پر ململ کا کرتا پہنے بیٹھے ہیں۔ چوڑا چکلا سینہ، سرخ و سپید رنگت، زیادہ سوچے کی وجہ سے آنکھیں اندر دھنس گئی ہیں۔ چارپائی کے سامنے کرسیاں بچھی ہوئی ہیں، لوگ آتے ہیں اور بیٹھ جاتے ہیں۔ ان میں ہر قسم کے لوگ ہیں، شاعر، لیڈر، اخبار نویس اسمبلی کے ممبر، وزیر، پارلیمنٹری سیکرٹری، طالب علم، پروفیسر، مولوی۔ کوئی آدھ گھنٹے سے بیٹھا، کوئی گھنٹا بھر، لیکن بعض نیاز مند ایسے ہیں جو گھنٹوں بیٹھیں گے۔ اور خاصی رات گئے گھر جائیں گے۔

حقہ کا دور چل رہا ہے۔ علمی ادبی اور سیاسی باتیں ہو رہی ہیں۔ اقبال سب کی باتیں سنتے ہیں اور بیچ میں ایک آدھ فقرہ کہہ دیتے ہیں۔ جو خود اس موضوع پر گفتگو شروع کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیلاب اندر چلا آ رہا ہے۔ اردو میں باتیں کرتے کرتے پنجابی کی طرف جھک پڑتے ہیں۔ کبھی کبھی انگریزی کا ایک آدھ فقرہ زبان پر آجاتا ہے، لیکن بات میں الجھاؤ بالکل نہیں۔ جو کہتے ہیں دل میں اتر جاتا ہے۔

میں نے کبھی ان کی صحبتوں میں اپنے آپ کو ان کے بہت قریب پایا ہے، لیکن مجھے بارہا ایسا محسوس ہوا ہے کہ مجھ سے دور ہیں۔ بہت دور شاذ و نادر ہی کوئی لمحہ ایسا آتا ہے کہ جو انہیں ہم دنیا والوں کے قریب لے آتا ہے۔

ان کی گفتگو علم و حکمت اور فلسفہ و سیاست کے متعلق ہی نہیں ہوتی تھی۔ وہ لطیفے اور پھبتیاں بھی کہتے تھے۔ میں نے انہیں موسیقی اور پتنگ بازی کے متعلق بھی باتیں کرتے سنا ہے۔ ان کے ہاں آنے والوں میں صرف اہلِ علم ہی نہیں تھے ایسے لوگ بھی تھے جنہیں علم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ وہ ان سے انہیں کے ڈھب کی باتیں کرتے۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں